Podcast

Introduction

Welcome to our new venture, a podcast series called Khoj which means to look for answers; to inquire; to search. We are stepping into the world of podcasts to bring into the public domain our rich reservoir of multifaceted research. We hope to use this medium to generate broader interest in the issues that we work on through a mix of dialogue and voices from the field.

The current series draws on findings from a research programme called Action for Empowerment and Accountability (A4EA), a multi-country research initiative hosted by the Institute of Development Studies in the UK. The podcasts in this series will explore areas of women’s collective action, changing civic spaces, and donor programmes to support empowerment and accountability.

Read our research publications here.


Card image cap

Episode 6: Fighting Early and Forced Marriages in Pakistan

Date:21-09-2021

Description: We discuss early and forced marriages in the country and the impact that they have on girls and women from minority communities.

Transcript کھوج پوڈ کاسٹ قسط نمبر چھ

آسیہ جاوید: اسلام علیکم۔ ہمارے پوڈ کاسٹ کھوج میں خوش آمدید۔ اس پوڈ کاسٹ سیریز کا اہتمام ہمارے تحقیقی اِدارے کلیکٹو فار سوشل سائنس ریسرچ نے کیا ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کے شہر کراچی میں واقع ہے اور ہم مختلف موضوعات پر تحقیق کرتے ہیں جن میں صنف، سماجی تحفظ، معیشت اور پالیسی کے تجزیے شامل ہیں۔ اس پوڈ کاسٹ سیریز کے ذریعے ہم اپنی تحقیق کے مختلف دلچسپ نتائج آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ کام پروگرام ایکشن فار ایمپاورمنٹ اینڈ اکاؤنٹبلٹی کا حصہ ہے جو کہ برطانوی انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اسٹڈیز کے تحت ہے۔ میرا نام آسیہ جاوید ہے اور میں کلیکٹو میں بطور ریسرچ آفسر کام کرتی ہوں۔

آج ہم پاکستان میں ہونے والی کم عمری اور جبری شادیوں کے بارے میں بات کریں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اقلیتی برادری کس طرح سے اس سماجی مسئلے کا شکار بنتی ہے۔ ہم اس مسئلے سے متعلق قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں بھی بات کریں گے تاکہ یہ جان سکیں کہ ان میں کیا اور کس طرح تبدیلی آسکتی ہے۔

آج کی قسط کے لیے ہم نے قانونی ماہر اور سرگرم کارکن سارہ ملکانی کو مدعو کیا ہے جو کہ وکلا کی بین الاقوامی تنظیم سینٹر فار ری پروڈکٹو رائیٹس کی نمائندہ ہیں۔ وہ عدالتوں میں بچوں کی شادی سے متعلق مقدمات بھی لڑتی ہیں اور آج ہمیں اپنے تجربات سے آگاہ کریں گی۔ ہماری دوسری مہمان منگلا شرما ہیں جو 2018 سے رکن سندھ اسمبلی ہیں، جن سے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کی ہندو برادری کو جبری تبدیلی مذہب اور شادیوں کے ضمن میں کس طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ ہمارے ساتھ انسانی حقوق کی کارکن سیما مہیشوری بھی موجود ہیں جو کہ ان مسائل کے باعث اثرات کے حوالے سے بات کریں گی اور آگہی پیدا کرنے کے ذرائع سے متعلق معلومات فراہم کریں گی۔ آپ سب کو اس اہم گفتگو میں خوش آمدید۔

ہیلو سارہ! آج ہمارے ساتھ اسٹوڈیو میں آپ کی موجودگی کا شکریہ۔ براہ مہربانی ہمیں 2013 میں منظور ہونے والے سندھ میں بچوں کی شادی کی ممانعت کے ایکٹ کے بارے میں آگاہ کیجئے۔ اس قانون کی ضرورت کیوں درپیش آئی اور کیا اس کے نتیجے میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے؟

سارہ ملکانی: 2013 کے دوران سندھ میں یہ قانون بچوں کی شادی کی ممانعت کا ایکٹ 2013 کے طور پر منظور کیا گیا، جس سے قبل 1929 میں منظور کیا جانے والا ایکٹ قابل عمل تھا۔ یہ ایک انتہائی پرانا قانون تھا جس کے تحت لڑکوں کی شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ سال اور لڑکیوں کی سولہ سال متعین تھی۔ اس میں یہ بنیادی ناہمواری تھی۔ 2013 کے قانون کی اہم ترین بات یہ تھی کہ اس کے ذریعے یہ ناہمواری ختم کردی گئی اور دونوں صنفوں کی شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ سال کردی گئی۔ اس طرح قانون کے ذریعے یہ اہم تبدیلی لائی گئی۔ چونکہ اس بات کی طبی وجوہات موجود ہیں کہ اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے لڑکیوں کے حاملہ ہونے کا عمل ان کی صحت کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی اٹھارہ سال کی عمر کو زندگی کے کئی معاملات میں شعور کی عمر سمجھا جاتا ہے۔ اس قانون میں جبری شادی کرانے والے والدین، نکاح خواں یا دیگر مددگار افراد کو دی جانے والی سزا میں بھی اضافہ کیا گیاہے۔ اس قانون کے بننے کے کچھ عرصے کے بعد اس کے قواعد و ضوابط بنائے گئے جن میں مختلف اداروں کو اس قانون پر عملدرآمد کے لیے پابند بنایا گیا۔ قانون بننے کے بعد ہمارے مشاہدے میں آیا کہ کئی ابتدائی برسوں میں اس پر عمل درآمد سست روی کا شکار رہا بالخصوص ایف آئی آر اور پولیس کیسز کی رفتار بہت سست تھی۔ پچھلے کچھ برسوں میں، جیساکہ ہمیں سول سوسائٹی سے معلوم ہوا ہے کہ اس کی رفتار میں تیزی آرہی ہے، اگرچیکہ ہمارے پاس اس ضمن میں تاحال ٹھوس اعدادوشمار نہیں ہیں۔

آسیہ جاوید: منگلا شرما جی، آپ ہمیں بتائیے کہ یہ مسئلہ اقلیتی برادری پر کس طرح سے اثر انداز ہو رہا ہے اور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے جبری تبدیلی مذہب کے معاملات ان کے خاندانوں پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں؟

منگلا شرما: 2013 کا زیر بحث قانون مجموعی طور پر تو تمام مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے ہے لیکن اقلیتی برادری اس کو خاص طور پر دیکھتی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ اس کی بنا پر چھوٹی بچیوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور بعد ازاں شادی کے نام پر ان کا مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو بچیاں نا بالغ ہیں، جن کا ووٹ تک رجسٹر نہیں ہے، جن کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نہیں ہے، جن کے پاس کوئی لائسنس نہیں ہوتا تو اس کو اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنا بڑا حق کیسے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ کرلے۔ اگر وہ نابالغ ہے تو پھر اس کا فیصلہ بھی نابالغوں والا سمجھا جائے۔ 2013 میں جب یہ بل اسمبلی میں پیش ہوا تو اقلیتی برادری کی جانب سے اس کو بہت پزیرائی ملی کیونکہ ان کو امید تھی کہ ان کے ساتھ شادی کے نام پر جو جبری تبدیلی مذہب کا مسئلہ درپیش ہے وہ شاید ختم ہو جائے۔ اگرچیکہ بہتری ضرور آئی ہے لیکن تاحال کئی ایک مسائل درپیش ہیں۔ اگر مقدمہ درج بھی ہوجائے تو عدلیہ کی ذہنی ساخت کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور عدلیہ کے فیصلے اقلیتی برادری کے حق میں نہیں ہوتے۔ اس لیے سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ کا رویہ حساس ہو۔ چونکہ تبدیلی مذہب دنیا بھر میں ہوتی ہے اور ہمیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اس پورے عمل میں مسائل ہیں جن کی بنا پر اقلیتی برادری دباؤ میں ہوتی ہے، ہراساں ہوتی ہے۔ سماجی سہولیات جیسا کہ تعلیم و صحت ہر ایک کے لیے ناپید ہیں لیکن اپنی عزتوں پر سودہ ناممکن ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں پر اقلیتی برادری انتہائی ڈری ہوئی ہے لیکن بل سے امید ضرور ہوئی ہے۔ کچھ کیسز میں بچیاں واپس بھی آئی ہیں۔ بل بہت اچھا ہے جس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

آسیہ جاوید: سارہ! آپ نے فرمایا کہ مقدمات درج ہو رہے ہیں، آپ کے مشاہدے میں کس نوعیت کے مقدمات آرہے ہیں؟

سارہ ملکانی: کچھ کیسز میں پولیس نے بھی اقدامات کیے ہیں۔ بارہ یا تیرہ سال کی بچیاں، جن پر والدین یا برادری کا دباؤ ہوتا ہے، جہاں شادی ہو چکی ہوتی ہے یا ہونے والی ہوتی ہے، وہاں پر ہم نے دیکھا ہے کہ ایکشن لیا گیا ہے اور ایف آئی آر بھی درج ہوئی ہے۔ کچھ کیسز میں شکوک وشبہات ہوتے ہیں خاص طور پر جہاں بچیوں کی عمر زیادہ ہو، پندرہ سولہ برس، جن کو ہم بلوغت والی بڑی لڑکیاں کہہ سکتے ہیں۔ ایسے کچھ کیسز میں پیچیدگی یہ سامنے آتی ہے کہ یہ لڑکیاں اس وقت کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور میرے شوہر نے میرے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ ہماری شادی برقرار رہے۔ اس طرح کے مقدمات میں ایک قانونی پیچیدگی آجاتی ہے، وہ یہ کہ اگرچیکہ کم عمری کی شادی غیر قانونی ہے لیکن ہماری عدالتوں نے یہ متعین کیا ہوا ہے کہ اگر کسی کی شادی کسی مذہب کے پرسنل لا کے تحت قانونی ہو تو ایسی شادی کو غیر قانونی ہونے کے باوجود منسوخ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس طرح ان مقدمات میں پیچیدگیاں آجاتی ہیں کہ اگر لڑکی بلوغت کو پہنچ چکی ہے اور اس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے اور مذکورہ شادی اس کی مرضی سے ہوئی ہے اور وہ عدالت میں ایسا بیان بھی دیتی ہے تو اس صورت میں ہم نے کئی مرتبہ دیکھا ہے کہ عدالت ایسی شادی کو مسلم پرسنل لا کے تحت جائز قرار دیتی ہے۔

اس ضمن میں یہ بات آفاقی نہیں ہے، کچھ کیسز میں عدالت نے کہا ہے کہ مذکورہ شادی جائز ہے اور لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ جاسکتی ہے، کچھ کیسز میں عدالت کا کہنا ہوتا ہے کہ اگرچیکہ وہ شادی منسوخ نہیں کررہی ہے لیکن چونکہ لڑکی اٹھارہ سال سے کم عمر ہے اس لیے اس کو شیلٹر ہوم بھیجا جارہا ہے اور اٹھارہ سال کی عمر ہونے پر وہ اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کرے گی۔

میں نے اس نوعیت کے جو مقدمات بھگتائے ہیں ان میں سے جبری تبدیلی مذہب کے کچھ مقدمات جو اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اس زمرے میں آتے ہیں جن میں کچھ اور پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔

آسیہ جاوید: کچھ کارکن سمجھتے ہیں کہ جبری تبدیلی مذہب کا حل اس ضمن میں ہونے والی قانون سازی کے ذریعے آئے گا۔ منگلا! آپ کے خیال میں یہ بل قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش ہونے کے باوجود تاحال منظور کیوں نہیں ہو سکا ہے؟

منگلا شرما: میں سارہ کی بات کو آگے بڑھاؤں گی، جیسا کہ انہوں نے کہا کہ اکثریت کے فیملی لاز لاگو ہو جاتے ہیں اور لڑکی اگر بلوغت کو پہنچ گئی ہے تو شادی منسوخ نہیں کی جاتی۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگر لڑکی اور لڑکا دونوں ایک ہی مذہب کے ہیں تو اس صورت میں تو ان پر فیملی لاز لاگو کیے جاسکتے ہیں لیکن اگر دونوں مختلف مذاہب سسے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کے فیملی لاز مختلف ہیں تو ایسی صورت میں ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے فیملی لاز میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا ہے کہ بلوغت آتے ہی شادی کی جاسکتی ہے، تو ایسی صورت میں ریاستی قانون کا اطلاق ہو اور اگر ایسا قانون منظور ہونے کے بعد بھی عدلیہ کی جانب سے اس کے برعکس کوئی فیصلہ آتا ہے تو وہ یقیناً اقلیتی برادری کو متاثر کرتا ہے۔ اس لیے میں تو ہر جگہ یہی کہتی ہوں کہ اگر دونوں کا تعلق ایک ہی مذہب سے ہے تو بلا شبہ ان پر فیملی لاز لاگو کریں جبکہ اس کے برعکس ہونے کی صورت میں ان پر ریاستی قانون لاگو کریں جو کہ بالخصوص سندھ میں نافذ العمل ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہ بل قومی اسمبلی میں بھی پیش ہوا اور سندھ اسمبلی میں بھی، لیکن نہ جانے معاملات کہاں سے چلائے جاتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ آجاتی ہے۔ میں خود 2018 سے اسمبلی کی رکن ہوں اور ہم لوگ کئی مرتبہ کوشش کر چکے ہیں کہ یہ بل اسمبلی کی ایجنڈے پر آجائے۔ ہماری کوششوں سے یہ ایجنڈے پر بھی آجاتا ہے لیکن لگتا ہے کہ حکومت کہیں پر آکر انتہا پسندوں کے دباؤ میں آ جاتی ہے۔ پہلے بل پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اس میں عمر متعین نہیں کی جائے۔ جب حکومت نے یہ بل واپس بھیجا تو ہم نے اس میں ترمیم کی، جس میں کہا گیا کہ بل میں عمر کا تعین تو نہیں کیا جا رہا ہے لیکن شادی کے وقت شناختی کارڈ کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ کہیں تو ہمیں تحفظ حاصل ہو لیکن تاحال یہ بل پاس نہیں ہو سکا ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی یہ بل کمیٹی میں جاکر گم ہوگیا اور پھر واپس نہیں آیا۔ جبکہ یہاں سندھ میں کابینہ کے سامنے بھی پیش ہوچکا ہے لیکن دوبارہ اسمبلی میں پیش نہیں کیا جا رہا ہے۔ الگ الگ طریقوں سے مرہم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان ہندو کونسل اور میاں مٹھو اور پیر سرہندی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں لکھا گیا کہ اگر کوئی بچی آئے گی تو اس کو براہ راست مسلمان نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کو والدین سے ملوایا جائے گا، اس کے بعد اس کو مسلمان کیا جائے گا۔ لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ جب بچی والدین سے ملنے آتی ہے تو میاں مٹھو یا پیر ایوب جان سرہندی کے لوگ بھی ان بچیوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ بچیاں انتہائی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں اور وہ صحیح بیان نہیں دے پاتیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ اس طرح کے معاہدے کسی چیز کا حل نہیں ہیں۔ یہ مستقل حل نہیں ہے، جو کہ یہ ہوگا کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے جو ہمیں تحفظ فراہم کرے گی۔ حکومت پر دباؤ ڈالنے والے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا کوئی بل منظور ہوگیا تو اقلیتی برادری مضبوط ہو جائے گی، جبکہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم جو بل بنا رہے ہیں اس کے سلسلے میں خود میں نے کئی علماء سے بات کی ہے کہ ہم یہ بل آپ لوگوں کے بچوں کے لیے نہیں بنا رہے ہیں۔ اگر آپ اپنی بچیوں کی قانون کے تحت آٹھ دس سال کی عمر میں شادی کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان قوانین کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہیں کررہے ہیں۔ ہماری بچیوں کی شادیاں تو ہمارے قانون کے مطابق ہونے دیں۔ سو اس ضمن میں حکومت پر تاحال دباؤ ہے، اسی وجہ سے دونوں اسمبلیوں میں بل نہیں آرہا ہے۔ جب تک قانون سازی نہیں ہوگی اس طرح کی چیزیں چلتی رہیں گی اور اقلیتی برادری عدم تحفظ کا شکار رہے گی، خاص طور پر تبدیلی مذہب اور جبری شادیوں کے حوالے سے۔

آسیہ جاوید: سارہ! کیا پاکستان پینل کوڈ میں ایسا کوئی ضابطہ ہے جو جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کی کوشش کرتا ہو؟

سارہ ملکانی: اس پورے ماحول میں اس تناظر کو دیکھنا پڑے گا جس میں یہ واقعات پیش آتے ہیں۔ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے تبدیلی مذہب کے اکثر واقعات میں ان لڑکیوں کے اغوا ہونے کی اطلاعات ہوتی ہیں۔ ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ جیسا کہ منگلا نے بھی بتایا کہ ایسی لڑکیوں کی والدین سے ملاقات کے دوران بھی میاں مٹھو جیسوں کے لوگ بیٹھ کر انہیں ہراساں کررہے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہراساں کرنے، دباؤ ڈالنے، اغوا کرنے جیسے معاملات تو یقیناً پیش آرہے ہیں۔ یہ پولیس کی زمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں کو روکے۔ اگر کسی نے اغوا کرکے شادی کی ہے، پھر چاہے قانونی پیچیدگیوں کے باعث ایسی شادی جائز قرار دی گئی ہو، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کا اغوا نہیں ہوا ہے یا اس کو ہراساں نہیں کیا گیا ہے لیکن اس سلسلے میں موجود قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ پھر لازماً یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ان پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا؟ ہماری ریاست کے ادارے اس بات پر کیوں ناکام ہیں کہ وہ لڑکیوں کا تحفظ نہیں کرپاتے۔ جیسا کہ منگلا نے بتایا کہ ان کا مطالبہ ہے کہ شادی کے وقت شناختی کارڈ دکھانا لازمی قرار دیا جائے۔ سندھ میں کم عمری کی شادیوں ممانعت کے ایکٹ میں تو واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ شادی کے وقت شناختی کارڈ کا ہونا لازمی ہے۔ یہ اس لیے شامل کیا گیا تھا کہ یہی اس پر عمل درآمد کا ذریعہ تھا لیکن ہمیں نظر آتا ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اور تیرہ چودہ سال کی لڑکیوں کے نکاح پڑھانے والے نکاح خواہوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اگر ہم موجود قوانین کو درست طریقے سے لاگو کریں تو کئی ایک مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ ان مسائل کو دیکھتے ہوئے ہماری ترجیح یہ نہیں ہونی چاہیے کہ کسی مخصوص مذہب کو مظبوط کیا جائے یا اقلیت پر اکثریت کی مرضی ٹھونسی جائے۔ پہلی ترجیح برادری کے بجائے بچے کی ہونی چاہیے۔ بچے کی فلاح و بہبود ہونی چاہیے۔ اگر ایسی صورتحال درپیش ہو جس میں کچھ پیچیدگیاں سامنے آئیں کہ اگر لڑکی ایک مرحلے پر پولیس، عدالت یا اپنی برادری کے سامنے یہ کہہ بھی دے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے لیکن اگر اس بات کا کوئی معمولی سا شبہ بھی ہو کہ وہ یہ کسی دباؤ یا ڈر کی وجہ سے کہہ رہی ہے تو یہ ہماری ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے حالات پیدا کرے وہ اپنی آزادانہ مرضی سے بیان دے سکے۔ سندھ میں بچوں کی شادی کی ممانعت کے ایکٹ کے ضوابط میں یہ شامل ہے کہ بچوں کے تحفظ کے مراکز قائم کیے جائیں گے، جن کے تحت مشاورت بھی میسر ہوگی۔ اگر یہ تمام سہولیات موجود ہوں تو شاید لڑکیاں اپنے فیصلے اور مرضی صحیح طور پر بتا سکیں گی اور ان پر موجود دباؤ بھی کم ہوگا۔اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ قوانین بالخصوص بچوں کی کم عمری میں شادی کی ممانعت کے ایکٹ اور اس کے ضوابط کے ساتھ پاکستان پینل کوڈ کی متعلقہ دفعات پر صحیح طور پر عمل درآمد ہو۔ جبری تبدیلی مذہب کا بل جس کا منگلا ذکر کررہی ہیں، جو کہ واضح دباؤ کی وجہ سے منظور نہیں ہو پارہا ہے، اس میں ایک سقم جو شاید یہ بل مخاطب کرسکے کہ ہمارے ہاں کہیں بھی عمر متعین نہیں کی گئی ہے جس میں کسی انسان کی تبدیلی مذہب کو تسلیم کیا جائے گا۔ سو اس وجہ سے بارہ تیرہ سال کے بچے کی جانب سے بھی تبدیلی مذہب کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ تبدیلی مذہب کا قانون اس سلسلے میں عمر کا تعین کرسکتا ہے، وہ پھر چاہے پندرہ سال ہو یا اٹھارہ سال، جس میں کوئی انسان چاہے تو اپنی مرضی سے اپنا مذہب تبدیل کرلے۔ اور اگر اس عمر سے کم ہو تو ایسے اقدام کو جائز قرار نہیں دیا جائے۔ اگر یہ ہوجائے تو شاید ہم اس نوعیت کے معاملات میں ایک پیچیدگی ختم کرسکیں۔ اس وقت ہو یہ رہا ہے کہ اگر اقلیتی برادری کی کسی لڑکی کا مذہب تبدیل ہو گیا ہے تو عدالت کہہ دیتی ہے کہ وہ اب مسلم فیملی لاز استعمال کرے گی اس لیے قانون میں واضح ہو کہ متعین کردہ عمر سے کم کی ایسا فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ منگلا نے بتایا کہ اس صورت میں آپ مسلم پرسنل لا استعمال نہ کریں بلکہ ریاستی قانون لاگو کرکے ایسی شادی منسوخ کی جائے۔ میرے خیال میں یہ ایک متبادل ہو سکتا ہے۔

منگلا شرما: تبدیلی مذہب کے بل کو ہم نے اقلیتوں کے تحفظ کا بل کہا ہے کہ اگر آپ کو تبدیلی مذہب کی اصطلاح سے کوئی مسئلہ ہے تو ہم اس کو بھی ہٹا دیتے ہیں۔ ہم نے اس میں اقلیتوں کے تحفظ کے بل کے طور پر ترامیم کی ہیں۔ ہم قطعی طور پر یہ نہیں کہتے کہ کسی بھی عمر میں مذہب تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری گزارش بس اتنی ہے کہ اس کی عمر کا تعین کیا جائے۔ جب ہمارے ملک کا قانون بتا رہا ہے کہ آپ کو اٹھارہ سال کی عمر تک ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں، آپ کو کوئی لائسنس نہیں مل سکتا، اسی طرح اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے تبدیلی مذہب کو بھی قبول نہ کیا جائے جبکہ اٹھارہ سال کی عمر کے بعد ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ لڑکی گئی اور مذہب سے متاثر ہو کر اس نے مذہب تبدیل کردیا۔ یہ دراصل سماجی مسئلہ ہے جس کو بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذہبی رنگ دیا جاتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک لڑکی جو کبھی اپنے گھر سے دو محلے آگے نہیں گئی، وہ صبح گھر سے نکلتی ہے، دوپہر کو مذہب سے متاثر ہوتی ہے اور رات کو شادی کرلیتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ مذہب سے متاثر ہوئی ہے یا اس لڑکے سے؟ اس بات کا کوئی تعین نہیں ہوتا کہ لڑکی اپنی مرضی سے گئی ہے یا اغوا ہوئی ہے۔ تین چار دن کے بعد جب وہ مذہب کی تبدیلی سے متعلق بیان دیتی ہے تو پھر ان تمام باتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اس دوران کیا ہوا۔ لڑکے کے تمام گناہ/جرائم کو درگزر کر دیا جاتا ہے۔ ہمارا صرف اتنا کہنا ہے کہ قانونی طور پر اٹھارہ سال کی عمر سے قبل مذہب تبدیل نہیں کیا جائے۔ اٹھارہ سال کی عمر کے بعد وہ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرکے کسی سے بھی شادی کرنا چاہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

ہم تو اٹھارہ سال کی عمر میں شادی ہونے کے معاملے کو مذہبی طور پر بھی ثابت کرسکتے ہیں کیونکہ ہزاروں سال قبل جب رام اور سیتا کی شادی ہوئی تو رام کی عمر پچیس سال اور سیتا کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ ہم مذہبی طور پر تو بات ہی نہیں کررہے ہیں، ہم تو قانون کی بات کررہے ہیں کہ جب باقی تمام امور میں اٹھارہ سال کی شرط ہے تو پھر اس میں کیوں نہیں؟ اگر اٹھارہ سال سے کم عمر میں ووٹ اس لیے نہیں دیا جا سکتا کہ وہ نابالغ عمر ہے، جب ہم اس کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کو تیار نہیں ہیں تو پھر زندگی کا اہم ترین فیصلہ کرنے کا اختیار کس طرح دے رہے ہیں۔ ہم تبدیلی مذہب کی نہیں بلکہ تحفظ کی بات کرتے ہیں۔

آسیہ جاوید: اگر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے باوجود پولیس اور دیگر ادارے اقلیتی برادری کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اقلیتی برادری کے تحفظ کا بل انہیں کسی طرح کا تحفظ فراہم کرسکتا ہے؟

منگلا شرما: ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی منشا اقلیتی برادری کو تحفظ فراہم کرنے کی ہوتی تو اس بل کی منظوری میں اتنا وقت نہیں لگتا۔ رکاوٹیں تو یقیناً ہیں لیکن ہم اپنے موقف پر قائم ہیں۔ ہماری کوششیں جاری ہیں اور جو لوگ اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھتے ہیں وہ ہماری حمایت کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ جس کی جانب سارہ نے توجہ دلائی وہ کم عمری میں شادی کا ہے کہ جس جج کے پاس یہ معاملہ جاتا ہے تو فیصلے کا تعین اس جج کی اپنی ذہنی سوچ کے لحاظ سے ہوتا ہے کہ وہ کیا ہے؟ وہ اکثر کہہ دیتے ہیں کہ لڑکی خودمختار ہے اور وہ اپنی مرضی کی شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ جاسکتی ہے، جبکہ کچھ اس کے برعکس بھی فیصلہ دیتے ہیں۔ اس صورت میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچی شیلٹر ہوم بھیجی جاتی ہے لیکن شیلٹر ہوم کا ماحول بھی مثالی نہیں ہے۔ اگرچیکہ قانون میں موجود ہے لیکن عملاً وہاں پر کاؤنسلنگ کی سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ وہاں صورتحال یہ ہوتی ہے کہ بچی کو اپنے والدین سے ملنے نہیں دیا جاتا۔ شیلٹر ہوم ہو یا پھر دارالامان، ہر جگہ اکثریتی برادری کے ہی لوگ ہوتے ہیں، جہاں وہ لڑکی خود کو اکیلا تصور کرتی ہے اور وہ اپنا فیصلہ نہیں کر پاتی کیونکہ اردگرد موجود لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ تم نے یہ قدم تو اٹھا لیا اب واپس جاکر کیا کروگی؟ تمہیں کون اپنائے گا؟ اس طرح کے بہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اس لیے پہلے تو ایسی شادی کو منسوخ کیا جائے۔ میری ایک وکیل سے بات ہوئی جنہوں نے بچوں کی شادی کے معاملے پر کام کیا ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس پر اس لیے زور نہیں دیتے کہ آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ لڑکی اس دوران حاملہ تو نہیں ہو گئی ہے، ایسی صورت میں کئی دیگر معاملات اور شرائط عائد ہوتی ہیں۔ میرا ان سے کہنا تھا کہ ایسی لڑکی کا طبی معائنہ کرالیا جائے، کوئی تو ایسا بندوبست کیا جائے کہ کوئی راہ نکل سکے۔ یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ صرف حاملہ ہونے کے امکان کی وجہ سے کسی بچی کو برسوں شیلٹر ہوم میں رکھا جائے۔ اکثر لڑکیوں کو مکمل طور پر بالغ ہونے تک بھی وہاں نہیں رکھا جاتا۔ انجلی نامی لڑکی کے کیس میں بھی ایسا ہی ہوا، اس کو چار سال تک شیلٹر ہوم میں رکھنے کے احکامات تھے لیکن دو سال کے بعد جج نے اس کو شوہر کے پاس بھیج دیا۔ آج تک شیلٹر ہوم جانے والی کوئی بھی لڑکی واپس نہیں آئی۔

آسیہ جاوید: آپ دونوں سے یہ جاننا چاہوں گی کہ موجودہ نظام میں موجود پیچیدگیاں دور کرنے کے لیے ہمیں کون سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟

سارہ ملکانی: ہم جو پیچیدگیاں دیکھ رہے ہیں اور جو منگلا نے بھی بتائیں، ان کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری ریاست اور معاشرہ بچوں کو ان کے جائز حقوق نہیں دیتے۔ انہیں صحت، تعلیم، سماجی تحفظ، ثقافتی حقوق سمیت مختلف حقوق حاصل نہیں ہیں۔ یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ہم بچوں کی، بالخصوص اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے بچوں کی شادیوں کے جن زیادہ تر واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان میں اکثریت غریب طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے اس کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس میں غربت کا کیا کردار ہے۔ بچوں کی شادی کے خلاف ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس کے نتیجے میں لڑکی کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگرچیکہ پاکستان میں اس ضمن میں کوئی تفصیلی تحقیقی کام نہیں ہوا ہے لیکن دیگر ممالک میں ہونے والی تحقیق بتاتی ہے کہ کم عمری میں شادی ہونے والی لڑکیوں میں سے اکثر پہلے ہی اسکول نہیں جا رہی تھیں۔ وہ گھر یا اس سے باہر کوئی کام کاج کرتی ہیں۔ یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنی بچیوں کو کیا مواقع فراہم کررہے ہیں۔ ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ کم عمری میں شادی ہونے والی لڑکیوں کے پاس اپنے شوہر کے ساتھ جانے یا شیلٹر ہوم میں رہنے کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں ہوتا جبکہ شیلٹر ہوم میں دیگر خواتین اٹھارہ سال سے بڑی عمر کی بالغ عورتیں ہوتی ہیں۔ ایسا ماحول کم عمر بچیوں کے لیے مناسب نہیں ہوتا۔ کئی ایک شیلٹر ہومز میں تعلیم کی سہولیات نہیں ہیں۔ وہ شیلٹر ہوم سے باہر بھی نہیں نکل سکتیں، ایسا سمجھیے کہ وہ جیل میں بند ہوتی ہیں۔ کچھ لڑکیوں کو کئی سال کے لیے صرف اس لیے شیلٹر ہومز بھیجا جاتا ہے کہ وہ بیان دیتی ہیں کہ وہ اپنی کمیونٹی یا والدین کے پاس نہیں جانا چاہتیں۔ یہ کسی ایک برادری کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہندو، مسلم، مسیحی برادریوں کے معاملات میں میرا یہی مشاہدہ ہے کہ بچیاں کہہ رہی ہوتی ہیں کہ وہ واپس نہیں جانا چاہتیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ روایت انتہائی مضبوط ہے کہ اگر کوئی لڑکی ایک مرتبہ گھر سے نکل کر کسی لڑکے کے ساتھ تعلقات استوار کرلے، پھر چاہے وہ شادی میں تبدیل ہوں یا نہیں، وہ لڑکیاں دوبارہ اپنے ماحول میں قبول نہیں کی جاتیں۔ اس لیے وہ سمجھتی ہیں کہ شاید ان کے پاس اس لڑکے/مرد کے ساتھ جانے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں کئی ایک چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ نظام میں تبدیلی کی جو بات کررہی ہیں، اس سلسلے میں ہمیں کئی ایک تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ اس میں اولین ترجیح ہمیں اپنے بچوں بالخصوص لڑکیوں کی فلاح و بہبود، ان کے حقوق کے انتظامات کو دینی ہوگی۔

منگلا شرما: میں سمجھتی ہوں کہ اگر ہمارا کم عمری میں شادی کی ممانعت کا ایکٹ مکمل طور پر نافذ العمل ہوجائے تو بڑی حد تک مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے کیونکہ اصل مسئلہ کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے ہی پیدا ہورہے ہیں۔ کچھ اور بھی مسائل ہیں، جیساکہ سارہ نے بتایا کہ غربت کا مسئلہ ہے، ہماری کچھ رسم و رواج کا مسئلہ ہے، یہاں کی ثقافت کچھ اس طرح کی ہے کہ کم عمری میں شادی کرا دی جاتی ہے۔ ہماری بچیاں اسکول نہیں جا رہی ہوتی ہیں۔ ہم والدین کو کوئی ترغیب نہیں دے رہے ہیں کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم دلائیں۔ ہم اکثر اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ اتنے بچچے اسکول نہیں جا رہے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں لے رہے ہیں۔ ہم بنیادی چیزوں پر دھیان نہیں دے رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں مسائل کی ایک بہت بڑی وجہ غربت ہے۔ کئی ایک کیسز میں لڑکیاں ایک معمولی سے موبائل فون پر مرغوب ہوکر گھر سے نکل پڑیں۔ ریاست کو یہ تمام چیزیں دیکھنی ہوں گی، اس کے ساتھ اگر کم عمری میں شادی کی ممانعت کے ایکٹ کو درست طور پر نافذ کیا جائے تو بہتر پیش رفت ہوگی، اس کے لیے اہم عنصر عدلیہ کا ہے، اس کا حساس ہونا انتہائی ضروری ہے۔ کچھ کیسز میں وہ اس کا مظاہرہ بھی کرتی ہے، جیساکہ مہک کے کیس میں ہوا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ کیسز ہیں جن میں بچیاں واپس آئی ہیں۔ کراچی میں ایک کیس سامنے آیا جس میں ایک شادی شدہ خاتون نے مذہب تبدیل کیا۔ چونکہ وہ ایک بالغ عورت تھی اس لیے کسی نے بھی اس کے اقدام کی مخالفت نہیں کی، البتہ اس کے شوہر کا کہنا تھا کہ ان کی دو بچیاں اس کے سپرد کی جائیں، بچیاں بھی اپنے والد کے ساتھ جانا چاہتی تھیں۔ جس خاتون جج کے پاس یہ مقدمہ گیا وہ اتفاق سے میری دوست رہی ہیں اور ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ ہماری دوستی کے دوران وہ مجھے دو مرتبہ مسلمان ہونے کی ترغیب دے چکی تھیں۔ اب میں ایسی جج پر کس طرح اعتماد کروں کہ وہ ان بچیوں کو اپنے والد کے ساتھ جانے کی اجازت دیں گی۔ اور ہوا بھی یہی۔ اس کے بعد وہ بچیاں مدرسے چلی گئیں۔ اس لیے عدلیہ کی ذہنی سوچ کا حساس ہونا انتہائی ضروری ہے اور اگر اس نوعیت کا کوئی فیصلہ آتا بھی ہے تو ریاست کو نظر ثانی میں جانا چاہیے کیونکہ اگر ریاست نظر ثانی کی درخواست دائر نہیں کرتی تو اقلیتی برادری نقصان میں جاتی ہے۔ نوشہرو فیروز میں دائر ایک مقدمے کے دوران تو جج نے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ ایسے قوانین کو کچرے کے ڈھیر پر ڈال دیا جائے۔ اس پر ریاست کو کچھ زیادہ توجہ مبذول کرنی ہوگی کیونکہ جب تک قانون پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوگا مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔ کیونکہ عورتوں کی صحت، تعلیم، معاشی اختیارات سمیت تمام معاملات کم عمری کی شادی کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں اس لیے حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے۔

آسیہ جاوید: سارہ اور منگلا! اس گفتگو کے لیے آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں اتنی معلومات فراہم کی۔

میرے خیال میں وکلا، سیاستدانوں اور کارکنوں کو اس مسئلے سے لڑنے اور نظام میں تبدیلی لانے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اقلیتی برادری کی خواتین اور لڑکیاں اس سماجی مسئلے سے نجات حاصل کر سکیں۔ یہ پوڈ کاسٹ فلم ڈی آرٹ کے تعاون سے بنایا گیا ہے۔ میں ساؤنڈز گریٹ اسٹوڈیوز کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں، جہاں ہم نے یہ پوڈ کاسٹ ریکارڈ کیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ قسط آپ کے لیے معلوماتی ثابت ہوئی ہوگی۔ اپنا خیال رکھئے، خدا حافظ
Translation Episode 6 translation

Asiya Jawed (AJ), Sara Malkani (SM) and Mangla Sharma (MS)

AJ: Assalam u alaimum and welcome to another episode of our podcast series Khoj. This podcast series is hosted by Collective for Social Science Research - a development research organisation based in Karachi, Pakistan. We research on a wide range of topics including gender, social protection, economics and policy analysis. Through our podcast we will share with you some of the fascinating findings of our deep dives into the communities and issues we study. This work is part of the Action for Empowerment and Accountability (A4EA) programme, a multi-country research initiative hosted by the Institute of Development Studies in the UK.

My name is Asiya Jawed and I work as a Research Officer at the Collective. Today we will talk about the endemic of early and forced marriages in Pakistan and we will try to find out how Pakistan's minority community gets impacted by this social problem. We will talk about laws regarding this problem and how law-enforcement agencies implement them so we can understand what changes can be brought forward and how.

For today’s episode we have invited lawyer and activist Sara Malkani who also represents the international advocacy organisation called the Centre for Reproductive Rights (CRR). She also fights child marriage cases in court here in Karachi, and will tell us about her experience. Our second guest is Mangla Sharma who has been the member of the Provincial Assembly of Sindh since 2018 and is actively involved in understanding how forced conversions and marriages are engineered in the Hindu community in Pakistan.

Hello Sara, thank you so much for joining in our discussion in the studio today. Can you tell me about the Sindh Child Marriage Restraint Act of 2013? Why was this law passed and did it make any difference?

SM: Yes, so like you said this law was passed in Sindh in 2013 - Sindh Child Marriage Restraint Act. Before 2013, in 1929 a Child Marriage Restraint Act was passed and only that was applicable. So that law was pretty old and according to that law the minimum age for boys to get married was 18, and for girls it was 16. So, there was this disparity… and the most important thing that happened in the 2013 law was that this disparity was removed and 18 years was set as the minimum age for marriage for both boys and girls.

So this was an important change in the law because there is also medical evidence regarding this that before the age of 18 girls and women shouldn’t bear children because that is really harmful for their reproductive health. So there was this evidence and then 18 years of age generally is considered to be the age of maturity in many fields of life. Therefore, this disparity of girls being married at 16 was resolved through the 2013 law. Other than that the punishment for parents, any adult male or nikkah khwan (marriage registrar) increased in this law.

Like you said the law came in 2013 and then a few years later rules were made in which different organizations were given the responsibility to implement this law correctly. Then we witnessed that for many years the implementation of this law was very weak. We saw that the turnover of the FIRs and police cases was pretty low. However, in the last few years… I don’t have exact figures available right now but what I have understood through civil society is that people are actually using this law to file cases and some FIRs are registered and cases are going on under this law.

AJ: Okay, thank you. So Mangla can you inform us about how this problem looks like in the religious minority communities? And how do families confirm if their children have gone through forced conversion?

MS: The Child Marriage Restraint Act of 2013 overall is for all religions and castes but the minority community looks at it in a special way because due to this law younger girls are kidnapped and then they are forcefully converted and then they are married off. So our stance is that if a girl is minor, does not have the capability to even vote, does not have a National Identity Card, or a driver’s license so how can we give them the right to change their religion? If she is a minor, her decision is also minor. And when the Bill was passed in the Assembly in 2013 so minority communities found a lot of strength in this because they felt this Bill would reduce forceful conversions so girls from the minority community are forcefully married.

When the case is put forward, the judiciary's mindset is also reflected and then the decision can also cause further problems for the minority community. So, it is important that the judiciary is sensitized and regarding conversions, that happens all around the world. We don’t mind conversions but the way girls and women from the minority community are converted is the problem. The minority community is under pressure and quite threatened because they don’t have adequate education and health facilities and making a compromise in the name of honor is difficult. The minority community is quite scared but the Bill is hopeful too because it has been used in some cases where the girls were found and brought back. So, this bill is great but more work still needs to be done.

AJ: So Sara, you told me that the FIRs are getting registered slowly and gradually. What kind of cases are coming up for the Child Marriage Restraint Act?

SM: There are some cases where the Police has also taken initiative -- in some cases the girls are really young, just 12 or 13 years old -- so when there is pressure from the parents or community and if they are about to get married or if they are already married then we see that some action is taken in that regard and FIRs have been registered. There are many cases in which there are some doubts where the age of the girls is a little more, for example 15 or 16 years old - what you would call older adolescents. So they are in the older teenage bracket and the complications that come in such cases are that the girl at that time says that she has married out of her own will and her husband hasn’t actually forced her to get married and she also says that she wants to sustain this marriage. Then there is also a legal complication in such cases which is that even though early marriage is illegal, our courts have laid down the law that according to the religious personal law if a marriage is legitimate, it would be illegal but it won’t be declared invalid or void. So there are complications in cases where if a girl has hit puberty and if she is saying that even though she is below the age of 18 but she has hit puberty and the marriage is out of her freewill then we have seen that many at times, according to the Muslim personal law, courts declare these marriages to be valid.

Then the response in action is varied - there isn’t a set response. In some cases courts rule the marriage to be valid so the underage girl can go and live with her husband. In some cases courts have said that they won’t declare the marriage to be void but because the girl is a minor, she will be sent to a shelter and when she is 18 years old, she can decide if she wants to be in that relationship or not. The cases that I have seen - forced conversion cases and cases related to the minority community which fall in this category so this extra layer of complication is then added.

AJ: Right, definitely. So, some activists believe that the solution to forced conversions in Pakistan is passing the Forced Conversion Bill. Mangla, in your opinion why is the bill being consistently rejected after being tabled in the national and provincial assembly?

MS: I will also follow up on what Sara just said because like she said that family laws are applicable for the majority and if the girl hits puberty then the marriage isn’t null and void. I personally believe that if the girl and boy belong to the same religion then one can apply the family law there but if they belong to two different religions and if their family laws are also different in those religions then we need to consider that. In our [Hindu] family laws it’s written nowhere that one has to get married if they hit puberty. So why in this case where the state has a law, the family law is applied… If the state has the law that no one under the age of 18 can get married then why does the judiciary make this decision - it impacts the minority community really badly. So, I also have this demand everywhere that if there is a case where both the boy and the girl have the same religion, they can apply the family laws. But, in the case of a different religion, if the state has a law and if there is a specific law especially in Sindh so that needs to be applied.

Other than that, the Bill was tabled in the National Assembly and the Provincial Sindh Assembly but we don’t understand who is handling all of this and how are they handling it because I have been in the Assembly since 2018 and I have personally tried many times that the Bill comes on the agenda. And with our efforts it also comes on the agenda. But somewhere along the government is pressured by the groups and the allegation that came before was that age shouldn’t be defined because of puberty. Therefore, we amended the age section but then after the amendment we said that we won’t determine an age but at the time of marriage NIC should be compulsory. If they make NIC compulsory, it will be the same thing. Minorities will at least get protection somewhere. However, this Bill is still not passed - it’s just lost in the National Assembly committee and hasn’t been passed yet. And then it came to the Cabinet too but they are not bringing it to the Assembly. They make little excuses here and there -- a few days ago Pir Mian Mithu and Pir Ayub Jan Sandagi had an agreement with the Pakistan Hindu Council. In that agreement they decided that if a girl comes directly, they won’t convert her but they will send her to her parents. However, the ground realities are that even if they let the girl meet her parents, the girl is always accompanied by the men of these Pirs and this little girl is then further pressured and therefore they cannot give a clear statement. Other than that, these agreements do not give us a permanent solution to anything. A permanent solution cannot be there if there is no legislation because legislation will eventually protect us. So, I don’t know why there is this pressure or why they are under this view that if a Bill of this sort is passed, or if there is legislation then minorities will be strengthened and will have a lot of power. So there is nothing like that in this case. We have also consulted ulemas and talked to them about the Bill and told them that if they want their girls to be married at an early age, they can do it according to the family laws that they have. But if they are getting our girls married off then our laws need to be followed. So, there is still pressure on the government… the Bill isn’t being presented in the Provincial or the National assembly. If we don’t have legislation, these things will keep going on and the minorities will remain insecure especially in regards to conversion and forced marriages.

AJ: Sara, does the Pakistan Penal Code (PPC) have a section that might stop forced conversions?

SM: This depends on the scenario in which the forced conversion has happened. Many of the cases that are reported have minority girls who are kidnapped and coerced. As Mangla said, there are some cases where the meeting is held between the girl and her family but the perpetrators are present there and they do coerce the minority girls. So, of course, coercion, force, kidnapping, abduction… all of these things are already illegal and it is the responsibility of the Police that they stop this and if someone has kidnapped a girl… even if he marries the girl later and there is this complication in the law because of which the marriage can’t be considered null and void but that doesn’t mean that the girl isn’t kidnapped… it doesn’t mean that the girl isn’t coerced into this. It just means that the laws are present and they aren’t being implemented and then this question is raised: why are these laws not implemented and why have our law enforcement agencies completely failed in this aspect? Why aren’t these law enforcement agencies protecting our women and our children? Like Mangla said that there was this demand that the NIC should be valid… So in the Child Marriage Restraint Act it is clearly written that during the time of the nikkah, it is imperative to have the NIC. This was done because this is one of the ways to implement the Act. But obviously we have seen that this is not being implemented and the nikkahkhwan (marriage registrar) is letting underage marriages happen where girls and boys who are 13, 14 or 15 years old are married off. And no action is taken against them. So, if we implement the existing laws correctly then a lot of problems can be solved. The most important thing in this is that when we look at all of these issues our priority shouldn’t be to strengthen a religion or impose the will of the majority on the minority and the communities shouldn’t be our first priority either. Our first priority should be the child, the minor, and the welfare of the child. So if any such situations come up which are complicated and in which the girls say in front of the court, Police or community leaders that she has married out of her free will. But still there is a doubt that the girl is under a lot of pressure and she left because she had some kind of fear so it is then the responsibility of the state to create better circumstances for her that help her convey her actual will and welfare. According to the rules of the Sindh Child Marriage Restraint Act, child protection institutes need to be built and counselling should be made available. These reforms need to be there and if they are, girls can talk about what they want to do more openly which will improve their welfare. And this will also reduce the pressure of forced marriages on them. So it is imperative that the existing laws, Child Marriage Restraint Act and Penal Code provisions should be implemented. And the Forced Conversion Bill that Mangla was talking about which is not being passed due to existing pressures… So there is this gap that the Forced Conversions Bill can address and that is that there is no minimum age given in which one person’s religious conversion would be considered valid. According to our law for example, a young boy’s conversion can be considered valid. A boy who is 11, 12 or 13 years old and is converted… that conversion would be considered valid. So, maybe one important thing that the Forced Conversion Bill can add is that an age of maturity needs to be determined which can be 18, 16 or maybe even 15. But a specific age needs to be determined where the person can willfully declare that they want to convert. If the person is younger than that age then that conversion should be considered invalid.

And if this happens then in such cases we can avoid this complication. Because what’s happening now is for example, a girl is converted to Islam then the courts say that they have to use the Muslim Personal Law. So, if there is this clarity in the law that conversions under a certain age won’t be accepted because the child isn’t mature yet… so they can decide if they are older or even if they are 16 per say. So like Mangla said, then the Muslim Personal Law should not be imposed and the state law should be imposed to declare the marriage as invalid. I feel like this could be one of the options.

MS: The Forced Conversion Bill which we later named the Minorities Protection Act because we thought that they might have contentions with it. It can also be amended and called the Minorities Protection Act. So the goal is to have a certain period in between. We don’t say or claim that people cannot convert at any age… that is not our stance. Our only stance is that there should be a certain limit. If the laws of this country don’t allow one to vote or drive before the age of 18 then how can someone convert before the age of 18? So if a conversion happens after the age of 18, that is fine. But if it happens before the age of 18, then it should be stopped. And then the process should be made clear… What we see is that a [minority] girl leaves the house and she’s impressed by the religion and so she converts. But the problem is social which we have unfortunately made a religious problem. If a girl has converted… so the conversion component should be there. We need to dissect the problem where the girl leaves the house and she doesn’t even know the way around town… she leaves the house in the morning… by afternoon she is impressed by the religion and by night she gets married. So the question is that either she is very impressed by the religion, or she is very impressed by the man who is a Muslim. And no one takes this into account.

So either she is converted, kidnapped or she goes on her own will. And sometimes girls and boys elope and come back after a few days saying that they have gotten married. But if the boy has kidnapped her, that allegation isn’t taken into account because they’re married now and the boy is actually considered a hero now. So if we don’t take these things into consideration, there will be a lot of problems. What we really believe in is that before the age of 18 the girl shouldn’t be allowed to convert, and after the age of 18 if she wants to convert and marry anyone she likes, she can do that. We don’t mind that. Religiously we can prove that the minimum age for Hindu girls to get married is 18 because when Shri Ram Chandra and Sita got married thousands of years ago, Ram was 25 and Sita was 18 years old. So we are not talking about this religiously. We are just urging to bring forward this law because in every other thing in life no one is allowed to do any major thing before the age of 18. We are not allowed to vote before the age of 18 because the person is a minor and can’t decide which candidate to vote for. So, if we don’t give a minor the decision-making power to vote then how can we allow them to make such a big decision which will have serious repercussions in their lives. We don’t mind people being converted… We are just talking about protection of 18 year olds. The only thing that we are saying is that minority girls should not be allowed to convert before the age of 18. We don’t mind if they want to convert after the age of 18 and live their lives as they will. However, if a minor girl is converted it is questionable and the entire minority community is against it and quite honestly disturbed by it.

AJ: So if such important provisions of the Penal Code are not being applied by the Police and other law enforcement agencies… So how will they implement the Minorities Protection Act to protect minority women and girls?

MS: If they were implementing those provisions then this Bill wouldn’t have taken so much time. There are definitely many hurdles but we are still strong on our stance - if not now then later we will make this happen and different people from the civil society who know about our problems are also supporting us. Sara just talked about child marriages and how when these cases are taken in court everything depends on the mindset of the judiciary. Some consider the marriage to be valid if the girl has hit puberty according to the Muslim Personal Law but some don’t. However, if they don’t let you go and don’t declare the marriage to be null and void, then the underaged girl who is about 12, 13 or 14 years old has to live in a shelter home. The situation of shelter homes in Pakistan is not absolutely ideal. The law requires for the girls to receive proper counselling but that actually does not happen on ground. The ground reality is that the girl is allowed to meet the parents of the boy or man she has married even though they are not allowed to meet their own parents. And the girl from the minority community who has left the house now feels isolated because Muslims are in a majority in Darul Amans and other shelters. And then she starts feeling alone and feels like she can’t undo this decision. Then, people around her also say that “You have taken such a big step now. Who will accept you?” etc etc. So there are all these other problems too.

I talked to another advocate who worked on child marriage cases and she told me that when the girls return after several days of elopement, they need to consider if she is pregnant or not. If the girl has conceived then there will be a set of problems and conditions that will follow. So, my suggestion was that their medical test should be done or there should be some sort of provision… And some girls are put in shelter homes for five years and some aren’t… Anjali’s case was that. She was sent to the shelter home for 3-4 years but then the judge sent her back to her husband. The girls who have gone to shelter homes haven’t actually ever returned to their parents’ home. So the simple solution is that we don’t allow them to convert before the age of 18 - I think that will solve many problems.

AJ: Okay. So Sara and Mangla, how do we find a solution to this convoluted problem? What systematic changes do we need to bring?

SM: Overall the complications that we are experiencing and what Mangla just talked about… one big reason for all of this is that our state and our society is not giving our children their rights. When we talk about different types of rights… be it education, social, cultural, health including sexual and reproductive health and rights are not given to them. It is important to discuss that many child marriage cases that we are looking at which are of minorities or even the Muslim cases… These cases are of people living in low socio-economic backgrounds. So it is important to understand the role of poverty here. An argument given in cases of Child Marriage is that when a girl is married at a young age her education is discontinued but studies done in other countries show that girls who are married at a young age are already not going to school - they are working in different capacities inside or outside the household. So we also need to see the opportunities that we are giving to our girls and if the girls are married at a young age so they only have two options: to go with their husband or to go two a shelter. And there are adult women in the shelters with these girls so the atmosphere isn’t the most ideal.

There are many shelters where the girls cannot continue with their education and they cannot leave the shelter so in a sense they are in a jail for many years. We also need to consider the fact that they are sent to shelters because the girls say that they don’t want to go back to their parents or their communities… and this is across the communities be it Hindu, Muslim, Christian cases etc, which I have seen first-hand. So we also need to take this into account that in our culture and society if the girl runs away from her house and has relations with another boy or man… doesn’t matter if the relations lead to marriage or not but the culture is to punish the girl in the harshest manner and because of this girls become really scared and they feel like their only option is to go with the boy or the man whom they’ve married or they go to a shelter home. So we need to consider all these aspects and the systemic change that you are talking about needs to be brought forward. And I think what we need to prioritize is the welfare of children, especially underage girls -- we need to understand what their rights are and how we can give those rights to them.

MS: I believe that if the Child Marriage Restraint Act is fully imposed then we can really end this endemic because the problem arises from child marriages. Like Sara said, there is a problem of poverty and of customs and cultures that they get the girl married really early off. Our girls are not going to school and we are not giving any initiative to the parents to send the girls to school. We proudly say that so many girls aren’t going to school but there is no real initiative for them. We are not focusing on basic things - poverty is a big challenge. In many cases this happens when a girl gets lured into such relationships by a small mobile phone. So the state also has to consider all of these things but if the Child Marriage Act is rightfully imposed then many problems will be solved and for that the judiciary needs to be sensitized. There are some cases where the girls do come back, for example Mehak’s case. But there was this case where a married woman converted, which is fine because she was old enough to make that decision. But she took her daughters with her as well. Her husband said that the woman should return the daughters and the daughters also wanted to come back. And the judge where this case went to was a woman from Jamat i Islami and was also my friend. She tried to convert me twice already so how would I ever believe that this judge would send the two daughters back to their father? And obviously that happened. Then those girls were enrolled in a madrassa. So the mindset of the judiciary needs to be sensitized and if there is any such case or decision then the state needs to go towards the review petition. When the don’t go towards the review petition the minority community suffers. So, if something like this happens then… There was a case that happened in Nowshero where the judge just said what kind of law is this and it should just be thrown in the dust bin. So if this law is fully imposed many problems will eventually be resolved. We just have an issue if the girl is under the age of 18. And there are a lot of issues regarding women’s education, health and economic power and in child marriages all of these problems come up. So if we fix one thing, we can fix many things and that’s why I think that the government should take this law seriously and implement it too.

AJ: Okay Sara and Mangla thank you so much for this important conversation and for imparting such imperative knowledge. I believe that lawyers, politicians and activists need to work together to fight this problem and bring systemic changes that will ultimately protect women and girls from the minority community. This podcast was produced in collaboration with Films d’Art. I would also like to thank Soundsgreat Studios for their recording facilities. I hope you found this episode of Khoj podcast series informative. Take care and goodbye.

Card image cap

Episode 5: Child Sexual Abuse in Pakistan

Date:26-07-2021

Description: We unravel the complexities of child sexual abuse cases in Pakistan and discuss the need for systemic change to stop this epidemic.

Transcript Episode 5
Transcription

Ayesha Khan (AK), Aisha Ijaz (AI), Sara Malkani (SM)

[slow music]

AI: And through our work, what we've seen is that the number of cases of online bullying, harassment, they're increasing. And this is across the board. We're not talking about any one socio economic demographic.

SM: We have seen a pattern though, that with individual cases, when there is an uproar, the state is quick to react. I think that the question is does that lead to systemic change

AK: Assalamu Alaikum and welcome to the podcast series Khoj. This series is hosted by the Collective for Social Science Research, a development research organisation based in Karachi. We work on a wide range of issues, from social protection to economics, poverty, gender, health, labour, and policy analysis to name just some. Through our podcast we will share with you some of the fascinating findings of our deep dives into the issues and communities we study. This work is part of a programme called Action for Empowerment and Accountability (A4EA), a multi country Research Initiative hosted by the Institute of development studies in the UK. My name is Ayesha Khan, and I have been working for many years on gender and development issues here at the Collective. For today's episode, I have invited lawyer and activist Sarah Malkani who represents the international advocacy organisation called the Centre for Reproductive Rights (CRR). She also fights child sexual abuse cases in court here in Karachi, and will tell us about her experience. Our second guest is Ayesha Aijaz, who is Programme Director at the well-known NGO called Aahung that advocates for the reproductive health and rights of young people. Aisha works with schools to bring life skills based modules into the education curriculum. Welcome Sarah and Ayesha!

In today's episode, we unpack what goes into the architecture of child sexual abuse cases in Pakistan. Now, every few months, there is an uproar in the media amongst civil society about a new child sexual abuse case. Recently, Mufti Aziz ur Rahman was arrested for sexually assaulting a teenage boy at a madrasah. Do you think Sara that the wider civil society gives equal importance to the issue when boys are sexually abused? And why do you think that we haven't managed to tackle the problem of sexual abuse in madrasahs?

SM: So I think that increasingly though, there is more and more awareness that boys are also vulnerable to child sexual abuse. And I think with the reports that have been servicing in the media, also, I think research that has been done by some NGOs, such as “Saahil” shows just how vulnerable young boys are to cases of child sexual abuse. And we know especially with this particular case, that boys in madrasahs are also particularly vulnerable. And I think, you know, some of the reasons why this issue hasn't been tackled in madrasahs overlap with why this issue hasn't been tackled properly in general, you know, and I know that in this podcast, we will talk in more detail about the weaknesses of both the protection and the accountability mechanisms to protect all children in general, but some are likely to be more vulnerable than others, I think, especially from poorer communities and lower income communities.

And we know that it is those children boys in particular, who are more likely to go to madrasahs. Madrasahs are catering in large part to children from these poorer communities where not only the children themselves, but also their parents and their communities just exercise less power. So they're, they're less able to protect their children from this and then obviously, with the madrasahs, we have that added layer of religious authority and so on which insulates them further. And the weakness of this of state institutions with respect to challenging those who carry this religious authority is even is even greater.

AK: So is that why Aisha, nothing has been happening all these years to tackle what goes on inside madrassahs? Are we just afraid?

AI: Yeah, I agree with Sara, through our work at Aahung what we've seen is that even within the government departments, even though we've been working with them for over 10 years now, there is an inherent fear within them to talk about these issues, because they automatically feel that there's going to be backlash. But what we have seen through our work is that when we've done pilot programmes in schools, when we've talked about child sexual abuse, when we've talked about reproductive health, parents and gatekeepers actually want this information to be given. So a lot of it is just a fear that's in their minds. They are a product of the same society that all of us are a part of, and it's just - it's this misconception in their head that talking about anything to do with sexual abuse or anything with the word sexual in it will result in some kind of major backlash.

AK: But you know, when a big media frenzy erupts, sometimes it does help to break through some of the mental barriers that we have. Maybe Sara, you can tell us a little bit about what happened after the Zainab case in Pakistan and what Were the actual policy and programme breakthroughs that were made possible because of the protests around the Zainab case and the general umm you know, the the public was distraught to hear about the rape and murder of a little girl…

SM: Yeah. So I can talk a little bit about maybe some of the legal developments that took place after the case, then, you know, you mentioned the giant uproar that happened. And we know that after this case, in particular, the law enforcement was particularly swift to act in how it investigated the case and it arrested the perpetrator, the punishment was also swift, and it was maximum punishment that was given, which was then later upheld on appeal.

And while there are some due process concerns about how that case was handled, we did see that because of the uproar the state, reacted very quickly and intensely in this particular case. But I think we have seen a pattern though, that with individual cases, when there is an uproar, the state is quick to react. I think that the question is does that lead to systemic change in the criminal justice system? So what about all those cases that we know are happening that do not lead to media uproar, or do lead to media uproar, but maybe only just for one day? I mean, I think now we're seeing that with the news cycle, child abuse cases are coming up, that covered for two days, and then they're forgotten, because there's another case, because that's the rapidity with which were seeing these cases coming now.

AK: But the Zainab Alert Response and Recovery Act of 2020, wasn't that supposed to bring systemic change?

SM: So that was, again, it was named after the Zainab case and it has certain limitations that I think is important to note, it is limited only to Islamabad and federal territory. So it's not applicable in most of the country. And also it is specifically you know, dealing with, with recovery of children who have been abducted or who are missing. So it's dealing with a specific class of child sexual abuse cases but we do know that child sexual abuse takes place in the home, it takes place, you know, with within the family, and it's actually more likely that the perpetrator is somebody that the child knows. It’s less likely… Zainab’s cases is probably not exactly illustrative of the nature of child sexual abuse that happens, and I think Aisha would know better about the kinds of trends that we're seeing. And so I think the Zainab the Zainab Recovery Act has, you know, it is limited not only in the scope of where it's applicable, but also in the nature of cases that it's addressing.

AK: So, um, you've mentioned that the criminal justice system hasn't been able to fully process these cases, maybe in the, with the due process that should be applied. What do you mean by that?

SM: So, um, you know, I, there are obviously certain for criminal accountability for these cases, there are certain procedures and processes that have been have to be followed that in our system are led by the police. And, you know, we're still seeing that, especially when you're dealing with children, when you're dealing with young people, there has to be a certain sensitivity in how you're investigating the case, the child and the family have gone through a lot of trauma. So, you know, so initially, just in the approach of the initial investigation, because it's not sensitive, what we see is it very quickly, a lot of families and children themselves shrink, and they don't want to continue with the process. And then knowing that a trial is going to last for so long, you know, that in itself is a deterrent. And then also, our investigation of the physical evidence is still weak is still not well developed, you know, now is mandatory, for example, to collect DNA in cases of rape and sexual abuse, but we still don't have DNA laboratory is really in anywhere in the country, including Karachi, which are able to process this evidence. So there's just some examples of where the process is failing the victims. But what is a little bit but what is then concerning is that with these high profile cases, you know, in order to speed up the accountability, instead of fixing the processes, there is kind of a push to maybe sideline them so that the due process of the accused people which is also important to keep in mind are also compromised. So I think it's important to do to improve our system so that they are very sensitive to the survivors, to the families to the victims, but are also keeping, you know, the other constitutional rights in in mind.

AK: And I think I agree with you Sara that also improving our systems is not just a question of adding new laws. And more punitive measures, we need to also improve systems, for example, in education, such that children and parents know enough about the issue that they can be somewhat empowered to prevent it. And isn't that kind of what the work Aahung does?

AI: Yeah, absolutely. So we've always approached the issue of child sexual abuse from a preventative angle. So Aahung for the last 20 years has been working on promoting life skills based education. Life Skills Based Education, also known as LSBE is an interactive, interactive teaching methodology that basically imparts skills and information to young people around reproductive health. As part of LSBE, we cover a whole range of topics - so we talk about gender, we talk about puberty, we talk about human rights, we focus very heavily on violence and the prevention of violence. So under the umbrella of our LSBE programme, we've been working a lot with kids as young as three or four years old, on how they can prevent cases of child sexual abuse from happening. And so one of the main steps that we took within the province of sand and this is over a decade ago was to work with the government to try and integrate LSBE into their curriculum. So this was a process that started in 2010. It was a fairly slow process. We started with doing a couple of pilot programmes in a limited number of schools so we could generate evidence, and we could show the government that it's possible to go into the schools, it's possible to train teachers, and it's possible to talk to young people about issues of reproductive health and about preventing sexual violence without there being a backlash in communities.

And because we were able to successfully demonstrate that when the Zainab case took place in early 2018, the Sindh provincial government was very quick to reach out to us and they sped the process of integrating content into their curriculum.

AK: So, what is in the curriculum now?

AI: So we had actually proposed a very intensive content that we wanted put into the textbooks, but obviously, given the bureaucracy of the system, and given how things work so far, we've only been able to integrate four themes. And those themes - one of them is violence prevention, and that's gone into the class seven social studies textbook. It talks about what violence is, it talks about the different aspects of violence, that has physical violence, emotional, it talks about the basics of good touch versus bad touch, it talks about the importance of communicating with a trusted caregiver, if you have been abused.

So I think that although it's been there, we have had success with the Sindh Education Department and then we were also approached by the Balochistan Education Department to work with them, it is important to note that challenges still exist, the government still is reluctant to add in content that they feel is too controversial. So when it's something related to skills, like communication, or peer pressure, or decision making they’re comfortable, but when you start moving into actual reproductive health topics like gender, puberty, even human rights, early and forced marriages, they automatically block it. And the only reason we were able to get the violence chapter in was because it was a knee jerk reaction to what happened with the Zainab case they had to show that we've done something. And since then, there were a lot more commitments that were made, including teacher training, because putting content into the book is not enough, your teachers need to be trained on how to teach that content. And since 2018, till now, we were supposed to train over 42,000 teachers, but we're not even close to reaching that target.

AK: But you've started training teachers?

AI: We did. We actually trained 500 master trainers, which was a very extensive process, it was led by Aahung. The idea was that those 500 master trainers would then cascade the trainings with the 42,000 teachers within the province of Sindh, 9000 teachers were trained, and this was pre COVID. And once COVID happened, the entire process is derailed for now.

AK: And what about in the other provinces?

AI: So in the other provinces, right after the Zainab case happened, we were contacted by the Balochistan Education Department, because I think they felt that if Sindh has been able to integrate some content around life skills based education, we would also like to do it. We started the process with them and it's actually been very encouraging because we've a lot of the learnings that we got through working with Sindh, we were able to integrate them into our work with Balochistan. So what we told the Balochistan education department was that it's not enough to take random content and integrated into random textbooks and random subjects, it needs to be a little bit more holistic. So you need to take an entire chapter and put it in as opposed to just one activity, because that's a little piece-meal. So, so far things have been good with Balochistan. We've managed to go through all of their textbooks, we've looked at the entire curriculum, and we started working with their authors to generate content, which will then be printed in the books. Again, COVID was a limitation. So a lot of our travel to and from Balochistan was delayed because of that. But it's it's encouraging.

AK: It's encouraging, but of course, slow by encouraging and it's it's good to know that progress is possible, even in small steps. So we've begun to make inroads into the curriculum, there's more to be done, but at least the provincial politicians are beginning to take notice and realise that this is an important issue that their constituents are taking seriously. And I think that even the Ministry of Human Rights in Islamabad in 2019, they launched a communication campaign using Shehzad Roy as an influencer, that was also intended to target caretakers, teachers, guardians, and raise awareness about child sexual abuse. And they even carried messages which warned that often the victim… the perpetrator of the abuse is someone known to the victim, which is a very important message. And they asked that parents must speak to their children about it and reminded the public that boys are as vulnerable as girls, which links, of course, to our madrassah conversation earlier. But it seems that even after a certain level of awareness is raised in the population, whether it's through the schools or whether it's by these public service campaigns that are funded by the government. Do we have the services in place to actually meet the demand that would be generated by people understanding how to tackle the problem?

AI: So I think Ayesha you hit the nail on the head. And this is what we've seen through our work and our young as well. The more we go into communities, the more we go to schools, the more we spread awareness around child sexual abuse, what we've seen is that the number of people coming forward, so parents who come forward students who come forward young people who come forward saying that they are being sexually abused, that number is increasing. But then where do you direct them? Your protective mechanisms are falling short. So within Sindh, which is where I've had the most experience, for example, every district is meant to have a child protection unit or a CPU. But what we've seen is that these CPUs, they're defunct, there's no one there, they are the ones who are supposed to investigate cases, they are supposed to go to homes, and like we've discussed, majority of cases are taking place in the homes, it's family members, its relatives. So if a child comes forward, or if a mother comes forward, where do you… where do you take the child? That's the whole issue. And I think that even the government right now, like I said, before, they're comfortable talking about certain aspects of it. So they're very happy to make new laws, or they're happy to talk about the importance of education or the topics that are easily accepted in society. But when you're really talking about marital rape, or if you're really talking about sexual violence in detail, that's where the government also shies away from it. And that's where the issue is coming.

AK: And especially if you're talking about it happening within the family unit.

AI: Exactly, right.

AK: And I'm sure Sara, you would have come across cases where that you've had to handle where that has involved going to court against family members?

SM: Yes, going to court against family members or, you know, very close people in the community, neighbours and so on… And, and yeah, and I think I will just reinforce what what Aisha said about how, you know, the services that that really need to be in place to address these cases aren’t there. In Sindh you know, there was a Child Protection Authority Act that was passed way back in 2011 and it was meant to set up this authority that was going to work at the District level. And it would include, you know, Child Protection Units that would have welfare officers who would be trained to help children who are facing these challenges and help their families. But that still has not been made functional. And we still see that the police is still the frontline response. And while the police is obviously good at, you know, certain things such as arresting the perpetrator or protecting people from further harm, and then investigation for accountability, all the other things, the crucial services that survivors need, and their families need, you know, psychological services and so on… those are still not there. And it's actually really heartbreaking to see, you know, children have to, you know, go through the criminal justice process without any other form of support that is really needed. And so we see that the trauma continues to be intensified. And I think, you know, shelters and homes for children is another important policy measure. This part is meant to be a part of the 2011 law, as well as the Sindh Child Marriage Restraint Act of 2013. But even those functioning shelter homes for children aren’t there, and we have a problem when you know when when we're dealing with with girls who are victims of abuse and who are minors, that the shelters like Dar ul Amans aren't able to take minors and they don't take minors. And so I think that's also a real gap in the protection services where, especially when they're facing these threats from their families, they need a safe place to go. And that still isn't there.

AK: So in the absence of services, and in the absence of a criminal justice system that is quick and responsive… I think you've come across cases Sara where the community have themselves decided to attack a suspected perpetrator and take justice into their own hands. What does that… what are the implications of that?

SM: Yes, yes. And I think, you know, I don't know to what extent this is a phenomenon that we're seeing across the country. But in Karachi, I think, you know, with a few recent cases, we've seen communities really mobilise and actually do kind of, you know, mob, mob justice. And also, you know, protest outside police stations, you know, and then the police retaliates. So we're now I think, beginning to see that a lot of these, these abuse cases are having, you know, creating a lot of these tensions and fissures and the communities are expressing frustration, because they think that unless they make this kind of fuss, they're not going to be dealt with. And they also think so is the media, and is raising this kind of fuss and what and the media getting involved… we've talked about how it's good in the sense that it highlights a case. But often, although the media by law is not cannot disclose the identity of the child, not only do they disclose the identity, we've seen them interview children, just hours after it happens… And it's heartbreaking that families also facilitate that because they feel like that's the only way that they can get the case heard. So they call the media into their homes… And so, so yeah, so you're right. So in the absence of these services, we're seeing that people feel like they have to resort to self-help measures. But you know, again, those self-help measures are not necessarily in the best interest of the child.

AK: Yeah. So this whole need to develop systems and an understanding about what is what does child protection mean and how does the State need to work with its internal institutions in order to synchronise their efforts to protect children? I think that understanding is missing. I mean, I was part of the research behind the setting up of these child protection, the the work behind the Child Protection Act and the setting up of the interdepartmental coordination mechanisms in the provinces and I found that when we used to attend meetings and share the findings of our research about what are the services and policies and programmes in place for vulnerable children, we found that, you know, the government departments were not really owning the process. And they were seeing it as this was something that was funded by UNICEF, and they were seeing this as a donor driven process and that might be one of the reasons why this is slow to get off the ground. But I think our conversation has shown that the need is there. And the public is demanding it communities are demanding it. But the government has to do a lot more than just pass legislation, right?

SM: Right.

AK: I'm wondering what you think COVID has done to the vulnerability of children, especially now that they're spending so much of their time online? Isn't that also a whole new area where protective mechanisms need to be put into place?

AI: Yeah, absolutely. Ayesha. I think over the last one and a half years, we've seen as like you've said, children are spending a lot more time online. And through our work, what we've seen is that the number of cases of online bullying, harassment, they're increasing. And this is across the board. We're not talking about any one socio economic demographic, this is happening in low income schools, it's happening in middle income schools… In fact, we've had schools and the management of schools approached us to say that we need to tackle this issue. There have been so many cases of girls being harassed by boys, girls who've actually, you know, been the who've run away with older men to go get married to them. There's a lot that's happening. And so one of the things that Aahung has been looking at over the last couple of months is to figure out, how do you navigate these spaces… So how do you work with caregivers? How do you work with young people? And how do you give them information to bridge this gap? And one of the main things that we've seen and in our conversation with young people and a couple of focus groups and interviews that we did, that young people automatically feel that if they are being harassed or if they're being abused, they don't feel comfortable going to their parents that communication gap is the biggest gap we see across the board, we have young people telling us that I will first go to a friend or a peer and my absolute last resort is to go to my parents.

AK: Why? Why is that?

AI: It's this inherent fear that I won't be believed that I'm going to be blamed for it, that they're going to question why I was online to begin with. So it's a lot of that fear and a lot of that guilt that if I go to a parent or a caregiver, I will be blamed. That is, and that's across the board. It's young people who we've spoken to in, you know, low income communities, you know, middle income communities, they all have the same fear. So that really takes us back to the question, What are parents and caregivers doing? Why are they not communicating with young people? Or if they are communicating with them, why are they not giving them the message? that it's okay to come to me, before it's too late…

SM: Yeah, yeah, absolutely. Yeah. And I think what's happening is that, you know, with specially I think, with adolescent girls, we see that, you know, being online and having access to a mobile phone kind of opens up a world for them in a way that, you know, growing up in such restricted communities and families doesn't, so it's so it's, they see it as a great privilege, and it's something that they obviously want to hold on to and not be deprived of, but because they have not received the kind of life skills based education that wants to give, and it's so important to give that, you know, to understand the concept of consent to understand, you know, what could be a danger to you, you know, the they become more vulnerable. And then because, because we, you know, as a society and a culture and even even at the policy level, still don't know, what to do with with, you know, with young people engaging in some forms of consensual sexual activity, right, whether it's online, or whether or otherwise, but they do, and it's happening. And I think that's also another aspect that communities are struggling with, right. So a lot of cases where I think, you know, activity is, is consensual is, you know, can at some point become abusive, but how do we deal with that? And how do we address that? And I think that's a whole other aspect that we I think, haven't tackled yet, but I think we will, we will have to tackle because I think these are also creating a lot of tensions in in communities.

AK: That's right. So the whole spectrum from consensual to non-consensual behaviour, is something that we're not very comfortable discussing in our own families and our communities and with policymakers, we rather would like to think that everything that happens outside of marriage is forbidden, and everything that happens within marriage is okay. Whereas actually, the angle that we're coming from the protective angle, has to involve teaching and empowering people to negotiate consent.

SM: Right. Right.

AK: And that's a really difficult area, not just in Pakistan, I think, globally, this is a challenge.

SM: Exactly, exactly. Because our laws against child sexual abuse and rape, they don't have a minimum age of criminal responsibility, right. So what happens is that even, you know, adolescent boys can be considered, can be charged with rape, they can be charged with child sexual abuse, if, for example, on their phones, they have certain pictures, or they have certain videos, and we see those cases happening right where… so sometimes what happens is that we are seeing these criminal law as actually being being harmful to young boys.

AK: Yeah, so this is really a lot to think about today. Thank you so much, Sara and Aisha for taking the time to unpack this important issue with me and for the benefit of our listeners. It sounds to me that our government and other institutions do shed light on a specific case and start working on a cause and an issue but due to the lack of supportive services cases mostly fall through gaps in the system. And along with massive awareness raising campaigns that are already taking place, we need to have better follow up mechanisms and increase in the supply of legal and psychological help for victims and their families too. They also need to know who to approach when they face abuse. We have given a list of organisations who can provide socio-legal and psychological help as well as shelters for the victims of abuse. Please find this list on our website at www.researchcollective.org alongside the transcript of this podcast.

This podcast was produced in collaboration with Films d’Art. I would also like to thank Soundsgreat Studios for the recording facilities. I hope you found this episode of Khoj podcast series informative and interesting, and will tune in for the next one. until then take care and goodbye.
Translation کھوج پوڈ کاسٹ سیریز
قسط ۵
عائشہ خان، عائشہ اعجاز، سارہ ملکانی

عائشہ خان: السلام علیکم اور پوڈ کاسٹ سیریز کھوج میں آپ کو خوش آمدید۔ یہ سیریز کراچی میں واقع ایک ترقیاتی تحقیقی اِدارے کلیکٹو فار سوشل سائنس ریسرچ کی میزبانی میں پیش کی جارہی ہے، ہم سماجی تحفظ سے معیشت، غربت، صنف، صحت، محنت اور پالیسی تجزیہ سمیت انگنت موضوعات پر کام کرتے ہیں۔ اپنی پوڈ کاسٹ کے ذریعے ہم ان امور اور کمیونٹی سے متعلق اپنے عمیق مطالعے کے کچھ اہم اور دلچسپ نتائج اور حاصلات آپ کے سامنے پیش کریں گے۔ یہ کام برطانوی انسٹی ٹیوٹ برائے ترقیاتی مطالعہ جات کے تحت ایک کثیر الملکی تحقیقی پیش رفت اختیارات اور احتساب کے لیے عمل A4EA نامی ایک پروگرام کا حصہ ہے۔ آج کی قسط کے لیے میں نے تولیدی صحت کا مرکز CRR نامی ایک بین الاقوامی پیروی تنظیم کی نمائندگی کرتی قانون دان اور سرگرم کارکن سارہ ملکانی کو مدعو کیا ہے جو کراچی کی عدالتوں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے مقدمات بھی لڑتی ہیں۔ وہ ہمیں اپنے تجربات سے آگاہ کریں گی۔ ہماری دوسری مہمان عائشہ اعجاز ہیں، جو کہ ایک مشہور غیر سرکاری تنظیم آہنگ کی پروگرام ڈائریکٹر ہیں جو کہ تولیدی صحت اور نوجوانوں کے حقوق سے متعلق کام کرتی ہے۔ عائشہ عزیز تعلیمی نصاب میں معمولات زندگی کے ہنر پر مبنی ماڈیولز لانے کی غرض سے اسکولوں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ سارہ اور عائشہ آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

آج کی قسط میں ہم پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات کے بنیادی عوامل کا ذکر کریں گے۔ آج کل ہر کچھ عرصے کے بعد ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کسی نئے وقوعے کو لیکر آہ و بکا ہوتی رہتی ہے۔ حال ہی میں مفتی عزیز الرحمن کو ایک مدرسے میں ایک نو عمر لڑکے کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ سارہ! کیا آپ سمجھتی ہیں کہ وسیع تر سول سوسائٹی لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے معاملے کو بھی یکساں اہمیت دیتی ہے؟ اور آپ کے خیال میں ہم مدارس میں جنسی زیادتیوں کے مسئلے سے نبرد آزما کیوں نہیں ہو سکے ہیں؟

سارہ ملکانی: میں سمجھتی ہوں کہ یہ آگہی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ لڑکے بھی جنسی زیادتیوں کے جوکھم کا شکار ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی رپورٹوں کے علاوہ ساحل جیسی کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ نو عمر لڑکے کس طرح سے جنسی زیادتیوں کا شکار بنتے ہیں۔ حالیہ وقوعے سے بالخصوص ہمارے نوٹس پر آیا کہ مدارس میں لڑکے کس طرح سے جوکھم کا شکار ہیں۔ میرے خیال میں اس سوال کے جواب میں کہ مدارس میں اس نوعیت کے واقعات کے سدباب کے لیے مناسب اقدامات کیوں نہیں کیے گئے ہیں کا براہ راست تعلق ہمارے وسیع تر معاشرے میں اس کی جانب مجموعی رویے سے ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس پوڈ کاسٹ کے ذریعے ہم تمام بچوں کے تحفظ کے ضمن میں تحفظ اور احتسابی طریقہ کار کی کمزوریوں سے متعلق زیادہ تفصیل سے بات کریں گے جس سے میرے خیال میں غریب کمیونٹیز اور کم آمدنی والے پرت سے تعلق رکھنے والے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

اور ہمیں معلوم ہے کہ اسی پرت سے زیادہ تر لڑکے مدارس میں داخل ہوتے ہیں۔ مدارس میں ان غریب آبادیوں کے بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد پڑھتی ہے جہاں نہ صرف ان بچوں کو بلکہ ان کے والدین اور کمیونٹیز کو بھی فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے وہاں بچوں کو نسبتاً کم تحفظ حاصل ہوتا ہے، علاوہ ازیں، مدارس کے ساتھ مذہبی حیثیت بھی نتھی ہے جو کہ اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیتی ہے۔ جبکہ اپنی اس مذہبی حیثیت کو استعمال کرنے والوں کو للکارنے کے ضمن میں ریاستی اداروں کی کمزوری اس صورتحال کو مزید تشویشناک بنا دیتی ہے۔

عائشہ خان: تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مدارس کے اندر درپیش اس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کے ضمن میں ہم نے تاحال کچھ نہیں کیا؟ کیا ہم خوفزدہ ہیں؟

عائشہ اعجاز: جی۔ میں سارہ سے اتفاق کرتی ہوں۔ آہنگ میں اپنے کام کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ حکومتی محکموں میں بھی لوگ ان امور پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ ہم نے اپنے دس سال کے کام کے دوران مشاہدہ کیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کا شدید ردعمل سامنے آئے گا۔ تاہم اپنے تجربے سے ہم نے یہ بھی سیکھا ہے کہ جب ہم نے اسکولوں میں پائلٹ پروگرام کیے، جب ہم نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے متعلق بات کی، جب ہم نے تولیدی صحت کے متعلق بات کی تو والدین اور دیگر متعلقین چاہتے ہیں کہ انہیں اس سلسلے میں معلومات فراہم کی جائے۔ درحقیقت ان کے ذہنوں میں زیادہ تر خوف اور خدشات ہوتے ہیں۔ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جس میں ہم رہتے ہیں جہاں یہ قیاس موجود ہے کہ جنسی زیادتی یا کسی بات میں لفظ جنس کا استعمال شدید ردعمل کا باعث بنے گا۔

عائشہ خان: لیکن جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ ذرائع ابلاغ سے جب زیادہ شور شرابہ ہوتا ہے تو ہمارے درمیان موجود کچھ ذہنی رکاوٹیں دور بھی ہوتی ہیں۔ سارہ! کیا آپ ہمیں بتا سکتی ہیں کہ زینب کے وقوعے کے بعد پاکستان میں کیا کچھ رونما ہوا اور اس واقعے کے خلاف احتجاج کی وجہ سے پالیسی اور پروگرام کے ضمن میں کیا تبدیلیاں آئیں اور عوام الناس پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے جو کہ معصوم بچی کے ساتھ زنا اور اس کے قتل کی وجہ سے شدید غم وغصہ کا شکار تھے؟

سارہ ملکانی: جی۔ میں مختصراً کچھ قانونی پیش رفت پر بات کرنا چاہوں گی جو کہ اس وقوعے کے ردعمل میں ہونے والے غم وغصہ کے نتیجے میں سامنے آئیں۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ بالخصوص اس وقوعے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اس وقوعے کی تفتیش کرنے اور مرتکب کو گرفتار کرنے میں کس قدر تیز رفتار رہے، ملزم کو سزا بھی فوری طور پر سنائی گئی۔ یہ زیادہ سے زیادہ سزا تھی جو بعد ازاں اپیل میں بھی برقرار رکھی گئی۔

اگرچیکہ اس مقدمے کے معمولات کے دوران کچھ امور پر کئی تشویشناک پہلو بھی رہے تاہم ہم نے دیکھا کہ عوامی ردعمل کی بنا پر اس پر انتہائی فوری طور پر ادارتی ردعمل سامنے آیا۔ تاہم ہمیں ایک انداز عمل نظر آتا ہے کہ جس وقوعے پر عوامی ردعمل ہوتا ہے اس پر ریاستی ادارے فوری طور پر سرگرم ہوجاتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس کے نتیجے میں ہمارے نظام فوجداری عدل میں کوئی ادارہ جاتی تبدیلی بھی واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ سو ان تمام وارداتوں کا کیا ہوگا جو ہوتی تو ہیں لیکن ان پر ذرائع ابلاغ میں شور شرابہ نہیں ہوتا یا انتہائی کم ہوتا ہے؟ میرا مطلب ہے کہ اب ہم ایسی صورتحال میں ہیں کہ کوئی وقوعہ ہوتا ہے تو اس پر ایک دو دن شور شرابہ ہوتا ہے اور پھر ہم اس کو بھول جاتے ہیں کیونکہ اس دوران ایک اور وقوعہ سامنے آچکا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ان دنوں ایسے وقوعے تواتر سے پیش آرہے ہیں۔

عائشہ خان: کیا زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ 2020 ادارہ جاتی تبدیلیوں کے لیے نہیں لایا گیا تھا؟ سارہ ملکانی: یہ تھا تو اسی مقصد کے لیے اور اس کو منسوب بھی زینب کے وقوعے کے ساتھ کیا گیا تھا تاہم اس میں کچھ پیچیدگیاں بھی تھیں جن میں سے سب سے اہم یہ کہ اس کا دائرہ کار اسلام آباد اور وفاقی اراضی تک ہی محدود تھا۔ اس طرح یہ ملک کے بیشتر حصوں پر قابلِ اطلاق نہیں تھا۔ اور جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ اس کا سروکار صرف اغوا ہونے والے یا گمشدہ بچوں کی بازیابی سے ہی تھا۔ اس طرح یہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے ایک مخصوص اور محدود حصے کو مخاطب کرتا ہے جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ بچوں کے ساتھ ایسی زیادتیاں گھروں پر اور خاندان کے اندر بھی ہوتی ہیں۔ درحقیقت بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے زیادہ تر مرتکبین بچوں کے شناسا ہی ہوتے ہیں۔ اس کے کم امکانات ہیں کہ زینب کے ساتھ وقوعہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کی مکمل تصویر پیش کرسکے۔ میرے خیال میں عائشہ ان سامنے آنے والے رجحانات کے سلسلے میں ہماری بہتر رہنمائی کر سکیں گی۔ میں سمجھتی ہوں کہ زینب ریکوری ایکٹ اپنے اطلاق کے دائرہ کار اور مخاطب کیے جانے والے وقوعوں دونوں کے حوالے سے انتہائی محدود اثرات کا حامل ہے۔

عائشہ خان: جیسا کہ آپ نے کہا کہ نظام فوجداری انصاف ایسے کسی وقوعے پر مکمل طور پر زیر عمل آنے سے قاصر ہے، اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟

سارہ ملکانی: یقیناً ایسے مقدمات کی فوجداری جواب دہی کے لیے کچھ طور طریقے اور بندوبست موجود ہیں جن کی ہمارے اس نظام کو پیروی کرنی ہوتی ہے جس کی رہنمائی پولیس کرتی ہے۔ تاہم جب معاملہ بچوں یا کم عمر نوجوانوں کا ہو تو آپ کو کچھ حساسیت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے کہ مذکورہ مقدمے کی تفتیش کس طرح ہوگی کیونکہ بچہ اور اس کا خاندان بلاشبہ ایک سانحے سے دوچار ہوئے ہوتے ہیں۔ چونکہ ابتدائی تفتیش حساس نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اکثر خاندان ابتدائی اور فوری طور پر اس عمل سے لاتعلقی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مقدمات کی طوالت بھی اس طرح کی دستبرداری کا ایک اور ذریعہ بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے ہاں جسمانی شواہد کی تفتیش تاحال کمزور ہے جس کو ابھی بہتر اور جدید ہونا ہے۔ جیساکہ آپ کے علم میں ہوگا کہ اب زنا یا جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے حاصل کرنا لازمی ہے لیکن ملک بھر میں ہمارے پاس کوئی مستند ڈی این اے لیبارٹری عملاً موجود نہیں ہے۔ یہ کچھ مثالیں ہیں جن کے ذریعے بات واضح ہو سکتی ہے کہ ہمارا نظام متاثرین کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے علاوہ کسی حد تک تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ انتہائی تشہیر کے حامل مقدمات میں احتساب/جواب دہی کو فوری طور پر کرنے کی غرض سے طریقہ کار/عمل کو درست کرنے کے بجائے ایسی پیش رفت کا بھی امکان ہوتا ہے جس میں ملزمان کے ساتھ برتاؤ میں بھی اونچ نیچ ہوسکتی ہے۔ اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ متاثرین اور ان کے خاندانوں کی جانب حساسیت کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ دیگر آئینی حقوق کو بھی مدنظر رکھے۔ عائشہ خان: میرے خیال میں نظام میں بہتری سے مراد صرف نئے قوانین ہی متعارف کرانا نہیں ہے۔ سزاؤں کے ساتھ ہمیں اپنے نظام کو درست سمت میں لانا ہوگا، مثلاً بچوں اور والدین میں اس ضمن میں مناسب آگہی جو کہ ایسے کسی وقوعے سے محفوظ رہنے کے لیے انہیں بااختیار اور اہل بنائے۔ میرا خیال ہے کہ آہنگ یہی کچھ کر رہی ہے؟

عائشہ اعجاز: جی بالکل۔ ہم نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے معاملے کو ہمیشہ تحفظ کے حوالے سے مخاطب کیا ہے۔ آہنگ گزشتہ بیس برسوں سے زندگی میں کام آنے والے ہنر پر مبنی تعلیم کی ترویج پر کام کر رہی ہے۔ یہ ایک مربوط سرگرمیوں پر مشتمل ایک تدریسی طریقہ کار ہے جو نوجوانوں میں تولیدی صحت کے حوالے سے تعلیم و تربیت کرتی ہے۔ اس کے حصے کے طور پر ہم متنوع موضوعات جیسا کہ صنف، بلوغت، انسانی حقوق پر بات کرتے ہیں، ہم اپنی زیادہ تر توجہ تشدد اور اس کی روک تھام پر مبذول رکھتے ہیں۔ اپنے اس پروگرام کے تحت، ہم تین یا چار سال تک کے کئی ایک بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات کی روک تھام کے طریقوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے کوئی ایک عشرہ پہلے صوبہ سندھ میں حکومت کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس تدریسی مواد کو سرکاری نصاب کا حصہ بنانے کے لیے کام کیا۔ یہ کام ہم نے 2010 میں شروع کیا۔ یہ ایک انتہائی سست رفتار عمل ہے۔ ہم نے اسکولوں کی ایک محدود تعداد کے ساتھ کچھ پائلٹ پروگرام شروع کیے تاکہ شواہد حاصل کرکے حکومت کے سامنے پیش کر سکیں کہ یہ اسکولوں میں کیا جاسکتا ہے، اساتذہ کی تربیت ممکن ہے اور بچوں اور نوعمروں کے ساتھ تولیدی صحت پر گفتگو کی جاسکتی ہے اور لوگوں کے ساتھ کسی قسم کے منفی ردعمل کے بغیر جنسی تشدد کی روک تھام سے متعلق بات ہو سکتی ہے۔ چونکہ ہم اس کا کامیابی کے ساتھ مظاہرہ کرچکے تھے چنانچہ 2018 کی ابتدا میں جب زینب والا وقوعہ پیش آیا تو سندھ حکومت فورآ ہمارے ساتھ رابطے میں آئی اور انہوں نے متعلقہ مواد کو اپنے نصاب کا حصہ بنانے کے عمل کو تیز تر کیا۔

عائشہ خان: تو اب یہ نصاب کا حصہ ہے؟

عائشہ اعجاز: اگرچیکہ ہم نے انتہائی جامع مواد درسی کتب میں شامل کرنے کی تجویز دی تھی لیکن نظام میں پیوست افسر شاہی اور دیگر معاملات کی بنا پر تاحال فقط چار موضوعات اس میں شامل کراسکے ہیں، ان میں سے ایک تشدد کی روک تھام ہے اور یہ ساتویں جماعت کی معاشرتی علوم کی درسی کتاب میں شامل ہے۔ یہ تشدد کیا ہے، تشدد کی مختلف اقسام بشمول جسمانی اور ذہنی، قابلِ قبول چھونا اور ناپسندیدہ طور پر چھونا اور زیادتی ہونے کی صورت میں کسی بااعتماد نگہداشت فراہم کرنے والے فرد کے ساتھ اظہار کی اہمیت کا احاطہ کرتا ہے۔ اس طرح میں سمجھتی ہوں کہ میں نے پیش قدمی کی ہے کہ محکمہ تعلیم سندھ کے ساتھ ہمارے کامیاب کام کے بعد محکمہ تعلیم بلوچستان نے بھی اپنے ساتھ کام کرنے کی غرض سے ہمارے ساتھ رابطہ کیا۔ یہ مدنظر رکھنا اہم ہے کہ اگرچیکہ للکاریں تاحال موجود ہیں اور حکومت تدریسی مواد میں اس کو شامل کرنے سے بدستور ہچکچا رہی ہے کیونکہ وہ اس کو انتہائی متنازع سمجھتی ہے۔ اس طرح جب آپ کمیونیکیشن، دباؤ سے نکلنے یا فیصلہ سازی سے متعلق ہنر و حرفت تک محدود ہوتے ہیں تو وہ مطمئن اور پرسکون ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی آپ صنف، بلوغت، یہاں تک کہ انسانی حقوق، کم عمری میں یا جبری شادیوں جیسے اصل تولیدی صحت کے موضوعات کی جانب بڑھتے ہیں وہ اس پر قدغن لگا دیتے ہیں۔ تشدد سے متعلق باب شامل کراسکنے کی واحد وجہ ان کی جانب سے زینب کے وقوعے کے بعد یہ ردعمل ظاہر کرنا تھا کہ انہوں نے اس ضمن میں کچھ کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کئی ایک وعدے کیے ہوئے تھے جن میں اساتذہ کی تربیت بھی شامل ہے کیونکہ صرف کتابوں میں مواد شامل کرنا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ اساتذہ کو بھی اس بات کی تربیت دینا انتہائی ضروری ہے کہ وہ اس مواد کی تعلیم و تربیت کس طرح کریں۔ تاہم 2018 سے آج تک ہمیں بیالیس ہزار سے زائد اساتذہ کی تربیت کرنی تھی لیکن اس ہدف سے ہم کوسوں دور ہیں۔

عائشہ خان: تو آپ نے اساتذہ کی تربیت شروع کر دی ہے؟

عائشہ اعجاز: جی ہم نے کی ہے۔ دراصل ہم نے پانچ سو ماسٹر ٹرینرز کی تربیت کی ہے جو کہ انتہائی مفصل عمل تھا، جس کو آہنگ نے منظم کیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ یہ پانچ سو ماسٹر ٹرینرز سندھ بھر میں بیالیس ہزار اساتذہ کی تربیت کریں گے تاہم ابھی نو ہزار اساتذہ کی تربیت ہی ہو پائی تھی کہ کووڈ-19 کی وبا آگئی اور یہ پورا عمل اس وقت تعطل کا شکار ہے۔

عائشہ خان: دیگر صوبوں کی کیا صورتحال ہے؟

عائشہ اعجاز: زینب والے وقوعے کے بعد محکمہ تعلیم بلوچستان نے ہمارے ساتھ رابطہ کیا، میرے خیال میں انہوں نے محسوس کیا کہ اگر سندھ اس پروگرام کو اختیار کرسکتا ہے تو وہ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ ہم نے ان کے ساتھ کام شروع کیا جو حقیقتاً انتہائی حوصلہ افزا تھا کیونکہ سندھ کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہم بہت کچھ سیکھ چکے تھے اور ہم اس کو اپنے بلوچستان کے کام کا حصہ بنا سکتے تھے۔ اس لیے ہم نے محکمہ تعلیم بلوچستان کو بتایا کہ فقط یہاں وہاں سے کچھ مواد حاصل کرکے کسی کتاب میں شامل کردینا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے وسیع بنیادوں پر آگے بڑھنا ہوگا۔ اس لیے فقط کسی ایک سرگرمی یا ایک چھوٹے سے فقرے کو شامل کرنے کے بجائے آپ کو پورا باب شامل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس طرح بلوچستان کے ساتھ تاحال کچھ چیزیں بہت اچھی ہوئی ہیں۔ ہم نے ان کی درسی کتب کا جائزہ لیا ہے، ہم نے ان کا مکمل نصاب دیکھا ہے اور ہم نے مصنفین کے ساتھ مواد تیار کرنے کی غرض سے کام شروع کیا، جس کو بعد ازاں کتابوں میں شامل ہونا تھا۔ یہاں بھی کووڈ-19 نے ہماری راہ روکی جس کی وجہ سے ہمارے بلوچستان جانے کے کئی مواقع تعطل کا شکار ہوئے، تاہم وہاں ہمارا تجربہ حوصلہ افزا رہا ہے۔

عائشہ خان: یہ حوصلہ افزا بات ہے، اگرچیکہ اس کی رفتار انتہائی سست ہے تاہم یہ جان کر خوشی ہوئی کہ چھوٹی سی پیش رفت کے باوجود بہتری ممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نصاب تک پہنچ گئے ہیں، اگرچیکہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے لیکن کم از کم صوبائی سیاست دانوں نے نوٹس لیا ہے اور یہ ادراک کیا ہے کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے جس کو ان کے ووٹرز سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ میرے خیال میں انسانی حقوق کی وفاقی وزارت نے بھی 2019 میں شہزاد رائے کے ذریعے اپنی ایک مہم شروع کی تھی جس کے مخاطبین بھی نگران، والدین اور اساتذہ تھے اور جس کا مقصد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں سے متعلق آگہی پیدا کرنا تھا۔ اس میں یہ پیغام بھی تھا کہ جرم کے اکثر مرتکبین بچوں کے جاننے والے ہوتے ہیں، میرے خیال میں یہ اہم پیغام تھا۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اس سے متعلق بچوں سے بات کریں اور عوام الناس کو یاد دہانی کرائی کہ لڑکیوں کی طرح لڑکے بھی اس جوکھم کا شکار ہیں، جو کہ ہماری قبل از کی گئی بات سے متعلقہ ہے۔ تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ اسکولوں میں یا اس نوعیت کی کسی مہم کے ذریعے آبادی میں آگہی کو ایک حد تک پیدا کرنے کے بعد آیا ہمارے ہاں اس نوعیت کی خدمات یا ادارے موجود ہیں جو کہ اس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کے عوامی ادراک پیدا ہونے کے تقاضے پورے کر سکیں؟

عائشہ اعجاز: عائشہ خان! میں سمجھتی ہوں کہ آپ نے بالکل درست نشانہ تاکہ ہے اور یہی کچھ ہم نے اپنے کام اور اپنے نوجوانوں کے ذریعے مشاہدہ کیا ہے۔ ہم جتنا زیادہ لوگوں میں جاتے ہیں، جتنا زیادہ اسکولوں میں جاتے ہیں، جتنی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں سے متعلق آگہی پھیلاتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ آگے آتے ہیں، والدین آگے آتے ہیں اور یہاں تک کہ نوجوان بچے بھی آگے آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم انہیں کہاں بھیجیں؟ آپ کا تحفظ کا نظام ناقص ثابت ہوتا ہے۔ سندھ میں جہاں مجھے سب سے زیادہ کام کرنے کا تجربہ ہے، ہر ضلع میں بچوں کے تحفظ کا ایک یونٹ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہمیں یہ یونٹ بے عمل نظر آتے ہیں، ان میں کوئی تقرری نہیں ہوئی ہے، ان کو وارداتوں کی تفتیش کرنی تھی، انہیں گھروں تک جانا تھا کیونکہ جیساکہ ہم بات کر چکے ہیں کہ زیادہ تر واقعات گھروں میں خاندان کے افراد کی جانب سے زیادتیوں کے رونما ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ یا اس کی والدہ آگے آتے ہیں تو وہ جائیں کہاں؟ یہ ہے اصل مسئلہ۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس وقت حکومت بھی اس معاملے کے کچھ پہلوؤں پر بات کرکے مطمئن ہو جاتی ہے۔ اس طرح وہ نئے قوانین متعارف کراکر خوش ہو جاتے ہیں یا معاشرے میں آسانی کے ساتھ قبولیت حاصل کرنے والی تعلیم یا موضوعات کی اہمیت پر بات کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب آپ ازدواجی زنا کی بات کرتے ہیں یا جنسی تشدد پر تفصیل سے بات کرتے ہیں تو حکومت اس سے کنی کترا کر دور ہو جاتی ہے۔ یہی اصل مسئلہ ہے۔

عائشہ خان: اور بالخصوص جب آپ خاندان کے اندر رونما ہونے والے واقعات پر بات کر رہے ہوں۔

عائشہ اعجاز: جی، بالکل۔

عائشہ خان: سارہ! مجھے یقین ہے کہ آپ ایسے مقدمات سے یقیناً نبرد آزما ہوئی ہوں گی جہاں خاندان کے کسی فرد کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا ہو؟

سارہ ملکانی: جی، خاندان کے افراد یا کمیونٹی کے انتہائی قریبی افراد یا پڑوسیوں کے خلاف عدالت میں جانے کا معاملہ میرے تجربے میں رہا ہے۔ میں اس بات کی تائید کروں گی جو کہ عائشہ اعجاز نے کہی ہے کہ ایسے واقعات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں جن خدمات کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں میسر نہیں ہیں۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ سندھ میں 2011 کے دوران بچوں کے تحفظ کی اتھارٹی ایکٹ منظور کیا گیا، اس اتھارٹی کو ضلعی سطح پر کام کرنا تھا۔ جبکہ اس میں بچوں کے تحفظ کے یونٹ کو ہونا تھا جس کے ویلفیئر آفیسرز کو ان للکاروں کا مقابلہ کرنے والے بچوں اور ان کے خاندانوں کی مدد کرنے کے لیے تربیت یافتہ ہونا تھا۔ تاہم یہ ابھی عمل پزیر نہیں ہوئے۔ ابھی تک ہم پولیس کو ہی اولین کارروائی کرنے والے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اگرچیکہ پولیس کچھ معاملات جیسا کہ مرتکبین کو گرفتار کرنے یا لوگوں کو مزید کسی نقصان سے محفوظ رکھنے اور بعد ازاں تفتیش کرنے میں کافی بہتر ہے لیکن نفسیاتی خدمات جیسے اہم عوامل جن کی متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کو شدید ضرورت ہوتی ہے تاحال میسر نہیں ہیں۔ یہ درحقیقت ایک مایوس کن امر ہے کہ بچے کسی اشد ضرورت کے بغیر فوجداری نظام عدل سے نبرد آزما ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے صدمے میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے پناہ گاہیں ایک اور اہم پالیسی اقدام ہے۔ اس کو 2011 کے قانون اور سندھ میں بچوں کی شادی کی ممانعت کے ایکٹ مجریہ 2013 کا حصہ ہونا تھا۔ لیکن بچوں کے لیے ایسی پناہ گاہیں بھی موجود نہیں ہیں، یہ مسئلہ اس وقت اور زیادہ سنگین ہو جاتا ہے جب متاثرہ بچہ لڑکی ہوتی ہے کیونکہ جیساکہ آپ جانتی ہیں کہ دارالامان نابالغ بچوں کو اپنے ہاں نہیں رکھتا۔ اس لیے میرے خیال میں تحفظ فراہم کرنے والی خدمات میں واضح نقائص ہیں، بالخصوص جب بچوں کو اپنے خاندان کے اندر ہی کوئی خطرہ لاحق ہو تو انہیں تحفظ کی حامل کوئی جگہ میسر ہو جو کہ تاحال نہیں ہے۔

عائشہ خان: سو خدمات کی عدم موجودگی میں، فوری اور مناسب کارروائی کے حامل فوجداری نظام عدل کی عدم موجودگی میں ہم نے ایسی صورتحال کا مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے جہاں کمیونٹی نے اپنے طور پر مشکوک مرتکب پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے قانون اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ سارہ! آپ کے خیال میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

سارہ ملکانی: مجھے اندازہ نہیں ہے کہ ملک بھر میں ہمیں نظر آنے والے اس رجحان کی وسعت کیا ہے، تاہم کراچی میں، جیسا کہ حالیہ کچھ واقعات سے ہمیں نظر آیا ہے کہ لوگوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر ہجوم کی سزا دینے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ زیادتیوں کے اس طرح کے واقعات لوگوں میں تناؤ پیدا کررہے ہیں اور لوگ اپنی مایوسی کی بنا پر اس طرح کی کارروائیاں کرنے لگتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا کوئی اور حل نہیں ہے۔ جبکہ ذرائع ابلاغ بھی ان کے ساتھ گڑبڑ پھیلانے میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ وہ اس طرح کے واقعات کی تشہیر کرتے ہیں۔ دوسری جانب، اگرچیکہ قانونی تقاضوں کے تحت ذرائع ابلاغ کو متاثرہ بچے کی شناخت ظاہر نہیں کرنی ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ نہ صرف ایسا کرتے ہیں بلکہ وقوعے کے کچھ ہی گھنٹوں میں متاثرہ بچے کا انٹرویو بھی کرلیتے ہیں، دل شکنی کا امر یہ ہے کہ اکثر خاندان کے افراد ہی اس کا اہتمام کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اسی طرح ان کی بات سنی جائے گی، اس لیے وہ ذرائع ابلاغ کو اپنے گھر مدعو کرتے ہیں۔ آپ بالکل درست کہہ رہی ہیں کہ مذکورہ خدمات کی عدم موجودگی کی وجہ سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں اپنے طور پر کیے جانے والے اقدامات کو اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ اس طرح کے اپنی مدد آپ کے اقدامات کسی بھی صورت میں بچے کے مفادات میں نہیں ہوتے۔

عائشہ خان: جی۔ اس لیے ہمیں مکمل نظام کار تیار کرنے اور یہ ادراک پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ بچے کے تحفظ کے لیے کیا ضروری ہے اور ریاست کو بچوں کے تحفظ کے لیے اپنے اقدامات کو مربوط شکل دینے کے لیے اپنے اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں بچوں کے تحفظ سے متعلق ایک تحقیق کا حصہ رہی ہوں جو کہ بچوں کے تحفظ کے ایکٹ سے متعلق تھی جس میں صوبوں میں ایک دوسرے پر انحصار کرنے والے محکمہ جاتی طور طریقوں کو وضح کرنا تھا۔ ہم جب اجلاسوں میں شریک ہوکر اپنی تحقیق کو سامنے لاتے تو ہمیں اندازہ ہوتا کہ حکومتی ادارے اس عمل کی مکمل طور پر مالکی نہیں کررہے ہیں اور وہ اس کو بھی یونیسیف کی جانب سے فنڈ فراہم کیے جانے والا ایک معاملہ سمجھ رہے تھے اور اس کو ایک معاونت کار کی جانب سے چلائے جانے والے ایک پراجیکٹ کے طور پر دیکھنے کی وجہ سےمیرے خیال میں یہ پورا معاملہ سست روی کا شکار ہے جبکہ لوگ اور کمیونٹیز اس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت کو اس ضمن میں قانون سازی سے بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا۔ کیا خیال ہے؟

سارہ ملکانی: جی بالکل۔

عائشہ خان: میں یہ سوچ رہی تھی کہ آپ کے خیال میں کووڈ-19 نے بچوں کے جوکھم کا شکار ہونے کے امکانات کو کس حد تک بڑھا دیا ہے، بالخصوص وہ بچے جو اپنا زیادہ تر وقت آن لائن گزارتے ہیں۔ کیا یہ ایک بالکل ہی نیا معاملہ نہیں جس کے لیے حفاظتی اقدامات کیے جانے چاہئیں؟

عائشہ اعجاز: جی بالکل درست کہا آپ نے عائشہ خان۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں، جیسا کہ آپ نے کہا، ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ بچے بہت زیادہ وقت آن لائن ہوتے ہیں اور اپنے کام کے ذریعے ہم نے دیکھا ہے کہ آن لائن دھونس اور ہراساں کرنے کے واقعات میں انتہائی اضافہ ہوا ہے اور یہ ہر جگہ اور ہر طبقے میں ہے۔ ہم کسی ایک مخصوص سماجی اقتصادی گروہ سے متعلق بات نہیں کررہے ہیں، یہ کم آمدنی والی آبادی کے اسکولوں میں پیش آرہے ہیں، یہ متوسط طبقے کے اسکولوں میں پیش آرہے ہیں۔۔۔ درحقیقت کچھ اسکولوں اور ان کی انتظامیہ نے ہمارے ساتھ رابطہ کر کے کہا ہے کہ وہ اس سے نبرد آزما ہونا اور حل کرنا چاہتے ہیں۔ کئی ایک واقعات میں لڑکیوں کو لڑکوں نے ہراساں کیا ہے جبکہ کچھ واقعات میں لڑکیاں خود سے بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ اپنے گھروں سے نکل گئی ہیں تاکہ ان سے شادی کر سکیں۔ اس دوران بہت کچھ رونما ہو رہا ہے۔ پچھلے کچھ ماہ سے آہنگ جن چیزوں پر نظر رکھے ہوئے ہے وہ یہ معلوم کرنا ہے کہ ان سائٹس پر کس طرح جایا جائے تاکہ نگرانوں کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ نوجوانوں کے ساتھ کس طرح کام کیا جائے۔ اور آپ انہیں کس طرح کی معلومات فراہم کریں تاکہ وہ یہ خال پورا کرسکیں۔ ہم نے اپنے مشاہدے میں یہ دیکھا اور نوجوانوں کے ساتھ اپنی گفتگو اور کچھ فوکس گروپس اور انٹرویوز سے حاصل کیا کہ نوجوان اپنے تئیں محسوس کرتے ہیں کہ اگر انہیں ہراساں کیا جاتا ہے یا ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے تو وہ اپنے والدین کے ساتھ اس کے متعلق بات کرنے میں آسانی محسوس نہیں کرتے اور یہ خال ہی سب سے بڑا خال ہے جو ہمیں ہر طرف نظر آتا ہے۔ نوجوانوں نے ہمیں بتایا کہ وہ سب سے پہلے اپنے کسی دوست یا ہم عمر سے بات کریں گے جبکہ والدین کے پاس بالکل آخری متبادل کے طور پر جائیں گے۔

عائشہ خان: کیوں؟ ایسا کیوں ہے؟

عائشہ اعجاز: اس کا سبب پہلے سے موجود یہ خدشات ہیں کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جائے گا اور الٹا انہی پر الزام دھرا جائے گا اور یہ کہ ان سے باز پرس کی جائے گی کہ وہ آن لائن ہوئے ہی کیوں تھے۔ دراصل انتہائی خوف اور احساس جرم ہوتا ہے نوعمر بچوں میں کہ اگر والدین یا نگران کے پاس ایسی شکایت لے کر گئے تو خود انہیں ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ اور یہ بھی ہر جگہ اور طبقے سے مشاہدہ ہے۔ ہم نے کم آمدنی والے گھرانوں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں سے بھی اس ضمن میں بات کی ہے، ان سب کے یکساں خدشات اور خوف ہیں۔ یہ صورتحال ہمیں اس سوال کی جانب دھکیلتی ہے کہ والدین اور نگران کیا کر رہے ہیں؟ وہ نوعمر افراد سے گفتگو اور رابطہ کیوں نہیں کررہے ہیں؟ اگر وہ ان کے ساتھ بات کررہے ہیں تو تو پھر ان تک یہ پیغام کیوں نہیں پہنچا پا رہے ہیں کہ دیر ہو جانے سے قبل ہی ان سے رابطے میں آیا جائے۔

سارہ ملکانی: جی بالکل درست کہا۔ میرے خیال میں ہو یہ رہا ہے بالخصوص بلوغت کی عمر کو پہنچنے والی لڑکیوں کے ساتھ کہ آن لائن ہونے اور بالخصوص موبائل فون تک رسائی ہونے کی وجہ سے ان کے سامنے ایک پوری نئی دنیا کھل رہی ہے جو کہ عمومی طور پر انہیں اپنی پابندیوں کی حامل برادری یا خاندان میں میسر نہیں ہے، اس لیے وہ اپنی اس حاصل کو ایک مراعات کے طور پر دیکھتی ہیں، جس کو وہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں اور کسی صورت بھی اس سے محروم ہونا نہیں چاہتیں لیکن چونکہ انہیں زندگی گزارنے کے طریقوں کی تعلیم حاصل نہیں ہوئی ہے، جو کہ دینا اشد ضروری ہے تاکہ وہ رضامندی کا تصور سمجھ سکیں جبکہ اس کے بغیر وہ خطرے کے جوکھم کا شکار بن جاتی ہیں۔ اور چونکہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ معاشرے اور ثقافت کے طور پر اور یہاں تک کہ پالیسی کی سطح پر بھی ہمیں تاحال یہ معلوم نہیں ہے کہ ان نوعمر افراد کے ساتھ رضامندی کے ساتھ جنسی تعلق سے متعلق پھر وہ چاہے آن لائن ہو یا عملی زندگی میں، کس طرح بات کرنی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک اور مسئلہ ہے جو ہمیں درپیش ہے۔ میرے خیال میں کئی ایسے تعلق بھی ہیں جو ابتدا میں تو رضامندی کے ساتھ شروع ہوتے ہیں لیکن آگے چل کر جبری یا زیادتی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، اب ان سے کس طرح نبرد آزما ہوا جائے؟ اس مسئلے کو کس طرح مخاطب کیا جائے؟ میرے خیال میں چونکہ ہمارے پاس ان کے حل کا کوئی واضح تصور نہیں ہے اس لیے یہ لوگوں میں تناؤ کا باعث بن رہے ہیں۔

عائشہ خان: درست کہا آپ نے۔ اس کا مطلب ہے کہ رضامندی اور عدم رضامندی کے رویے کا معاملہ ہے جس پر ہم اپنے خاندانوں اور برادریوں میں اور یہاں تک کہ اپنے پالیسی سازوں سے بات کرنے سے کتراتے ہیں، اس کے بجائے ہم یہ تصور رکھتے ہیں کہ شادی کے بغیر تعلقات ہر صورت میں ممنوع ہیں اور ازدواجی زندگی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بالکل درست اور صحیح ہے۔ جبکہ درحقیقت تحفظ کے حوالے سے ہمیں لوگوں کو رضامندی حاصل کرنے کی نہ صرف تعلیم دینی چاہیے بلکہ اس کے لیے ان کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔ سارہ ملکانی: بالکل درست کہا آپ نے۔

عائشہ خان: میرے خیال میں یہ حقیقتاً ایک مشکل امر ہے نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں سارہ ملکانی: بالکل۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں اور زنا سے متعلق ہمارے قوانین میں جرم کا ارتکاب کرنے کی کم از کم عمر متعین نہیں ہے اس لیے ہوتا یہ ہے کہ نوعمر لڑکوں کو بھی اس کا مرتکب سمجھا جاسکتا ہے، ان پر زنا کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے، ان کو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا مرتکب قرار دیا جاسکتا ہے چاہے ان کے فون پر کچھ تصاویر یا ویڈیوز ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم اس طرح کے مقدمات کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ اس لیے کبھی کبھار ہمیں یہ فوجداری قوانین نوعمر لڑکوں کے لئے نقصاندہ دکھائی دیتے ہیں۔

عائشہ خان: حقیقتاً آج ہمیں اس ضمن میں بہت کچھ سوچنا ہوگا۔ سارہ اور عائشہ آپ دونوں کا بہت شکریہ کہ آج آپ نے اس اہم موضوع پر میرے ساتھ گفتگو کی جوکہ ہمارے سننے والوں کے لیے انتہائی مفید ہوسکتی ہے۔ میں یہ سمجھ پائی ہوں کہ ہماری حکومت اور دیگر ادارے کسی مخصوص وقوعے پر سرگرم ہوجاتے ہیں اور پر عزم طریقے سے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن مددگار نظام اور خدمات کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ نظام کی بھول بھلیوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر آگہی کی مہمات جو کہ جاری ہیں کے ساتھ پیروکاری کے بہتر طور طریقوں کے علاوہ متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ کے لیے قانونی اور نفسیاتی مدد فراہم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ زیادتی ہونے کی صورت میں وہ کس سے رابطہ کریں۔ ہم نے ایسی تنظیموں کی ایک فہرست مرتب کی ہے جو سماجی، قانونی اور نفسیاتی مدد فراہم کرنے کے علاوہ زیادتی کے شکار ہونے والوں کو پناہ بھی فراہم کرسکتی ہیں۔

یہ فہرست ہماری ویب سائیٹ پر موجود ہے۔ www.researchcollective.org یہ پوڈ کاسٹ فلمز ڈی آرٹ کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔ میں ریکارڈنگ کی سہولیات فراہم کرنے پر ساؤنڈز گریٹ اسٹوڈیو کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی۔ مجھے امید ہے کہ ہماری پوڈ کاسٹ کی یہ قسط آپ کو معلوماتی اور دلچسپ لگی ہوگی، اور آئندہ بھی آپ ہمیں سنتے رہیں گے۔ تب تک اپنا خیال رکھئے گا۔ خدا حافظ۔

Card image cap

Episode 4: Pakistan's LHWs: A Story of Service and Struggle

Date:09-07-2021

Description: Who are Lady Health Workers(LHW), and what has been their struggle? We unravel LHWs' history, mobilization and protests.

Transcript Asiya Jawed (AJ), Aisha Gazdar (AG), Ayesha Khan (AK), Bushra Arain (BA), Farhat Sultana (FS)

[protest chants]

AJ: Hello and welcome to our podcast series Khoj. This series is hosted by the Collective for Social Science Research. We are a development research organisation based in Karachi, working on a wide range of issues, from gender to social protection, economics, and policy analysis to name just a few. Through our podcast, we will share with you some of the fascinating findings of our deep dives into the issues and communities we study. This work is part of a programme called Action for Empowerment and Accountability or (A4EA) - a multi country research initiative hosted by the Institute of Development Studies in the UK.

My name is Asiya Jawed and in today’s episode we will talk about the Lady Health Worker Programme, and the women who lead their struggle for better employment conditions. The interviews for this podcast were conducted between July and October 2019 for the A4EA programme. Over tea at our office in Karachi, we had a long conversation with the founder of the Lady Health Worker’s Association, Bushra Arain and some of her colleagues who talked about their struggles and achievements.

The Lady Health Worker or LHW Programme began in 1993 when Benazir Bhutto was Prime Minister. It employed women from within communities to provide family planning services to the households in their area. As the Programme became more successful it expanded into today’s Lady Health Worker Programme that is recognized internationally as a major success. Its aim is to provide essential primary health services in rural and peri-urban communities throughout Pakistan. Today the Programme employs around 125,000 women who provide vaccination, maternal health screening, contraceptives and basic medicines by visiting families door-to-door. LHWs are recognized as leaders in their communities, but the government has been reluctant to give them their due as key services providers in the health sector.

Bushra Arain, who lives in district Jacobabad in Sindh, told us how she decided to join the programme.

AG as BA: I was always interested in working. I got married after finishing matric. I had four children in 10 years and during that time I also did my inter. I would take my children with me to college. When I applied for this job in 1995, my neighbor also came to the centre and filled my husband’s ears that she’ll be going to work alone in a car with a male driver… So my husband pulled me back at once and brought me back home. After a year, I applied for the post again because we weren’t able to survive on his income alone.

So I was interviewed for this job and got selected directly as a supervisor and thus started this work from there.

AJ: Farhat Sultana, on the other hand, became an LHW in 1995 initially for economic reasons.

AK as FS: I was 18 when my mother got me married off. After my marriage, I also had to support my husband because he was a factory worker earning daily wages. That is why, I started doing an office job. Then, one of my colleagues in Islamabad told me that a programme is being set up in which I could give my children all the time and support and also do fieldwork. So, I applied for the programme in 1994.

This is good work and also a way to do something noble – to save one person is like saving all of humanity. And our work is like this – we want people to be aware about their health.

AJ: Bushra told us that the programme expanded when the LHWs were given added responsibility of dispensing polio vaccinations. Their wages, however, did not increase with the added work load. Despite the important work that they were doing, the government offered LHWs only a small stipend. Initially it was just Rs 1900 per month and even a few years later it was only raised to Rs. 2,500 per month.

AG as BA: The provincial coordinator her name was Madam Husna Jaan – we never found any coordinator like her. She was such a nice lady. We were so passionate about our work because of her. She taught us so much. She also took us to Islamabad once or twice – she would always take the good supervisors, who would work well with her.

We realized that although our program is really good, we are only getting paid between Rs. 800 to Rs. 1,000 and the program supervisor is paid between Rs. 4,000 to Rs. 5,000 and that too after six or seven months. So after constantly observing these things for a long time, in 1998 our madam took us to a meeting and said that there’s some work related to EPI vaccinations, TT vaccines, so that can be done by us. The meeting was on that issue, and some people said, “No they are not educated, how can you let a high school pass administer a TT injection.” When everyone finished talking, I stood up and I said, “We will do it, we can and we will do it.” So we started doing the vaccines. And then they said, “If they can do vaccine, then they can do polio related work as well.”

AJ: In the early days of the vaccination and polio immunization programme, LHWs faced numerous challenges arising out of a lack of awareness in the communities about the polio drops. They devised clever strategies to counter fears based in cultural taboos.

AG as BA: During those days, new born babies were always kept at home – at least for forty days… The people would be superstitious and make strange excuses. They would discard the mother’s first milk, would also not give them vaccines. For example, the BCG vaccine is so important for tuberculosis, they wouldn’t give them that. They wouldn’t give them polio drops because they thought that it would make boys infertile. So we had to end all of their misconceptions about vaccinations and polio. We would do that by drinking the polio drops ourselves and injecting ourselves with TT vaccines. Then we would ask them, “Look we’ve drank these polio drops and injected ourselves with these TT vaccines, did we die, did anything happen to us?” So we had to use strategies like these.

AJ: Bushra first developed differences with the programme administrators when one of her colleagues died during childbirth and there was no response from her senior colleagues. She decided to boycott the government health providers’ meeting to take stock of every woman who has died in childbirth in the area. She thought it was extremely callous of the officials to ignore the death of one of their own.

AG as BA: Next morning we had our polio drive, and I told everyone that none of us will go to the drive, we will go to that place. Believe me, I can never forget that situation. I felt it so intensely, look my hands are shaking even now. I was extremely angry from inside. We had polio drives during those days and I said, “We will not do polio drives. They can go to hell!” We boycotted the polio drives.

So we have an MMC, which stands for Maternal Mortality Conference. This means that if I’m the supervisor and I have thirty women under me, and if any of these women die, or if any of the women are facing health issues, an MMC is conducted in which we have the supervisor’s visitor report, a monthly report of all the girls. Everything is discussed in this conference. Everyone is present in the conference - doctors, UNICEF representatives and basically every organization comes to attend that meeting.

So over there as a supervisor, I tell them about the maternal deaths that have taken place. I have to fill out a pro-forma form about the death. These forms inquire about everything. So now the moment I had to do this, I cancelled it and told all the supervisors to go home and I decided to do it myself.

….So I got the MMC cancelled. I said, “MMC for what? Mothers die, you’re doing an MMC for that? If a lady health worker dies, or a supervisor dies, then no one even comes to ask!”

……And the next day, all of us tied black cloths on our eyes and put dried rotis around our neck – Aijaz Jakrani was the federal minister at that time, and around two hundred of us, women went there and sat. And this was for the first time that women came out in Jacobabad and sat on the streets, in front of that Minister’s bungalow.

AJ: Next came a sustained strategy to make their demands heard. Bushra formed the Lady Health Workers’ Association. LHWs began to stage sit-ins and jalsas regularly to demand salary increase and to be made regular government employees with all the related benefits. In February 2010, they boycotted the polio campaign to express their dissent. Bushra remembers putting together all the newspaper stories about their protests and taking the heavy binder straight to the corridors of power in Islamabad.

AG as BA: Okay so I would collect all the newspaper articles of our press releases. I collected articles from Kashmir and from every other place where we held our protests. I came to Islamabad with this book. I ended up creating an extremely thick book of all the articles and made 35 copies of it. I went to the Supreme Court and there was a huge box there in which everyone whose grievances weren’t heard, would put their grievances in it. So, I tried to fit my huge book into that box. When I was initially unable to do that, there was a police man standing nearby who offered to help. So, I said to him, “No, I will do this. This is my issue, my problem. I will do it myself.”

AJ: LHWs gathered together for their first large demonstration in Islamabad in September that same year.

[protest chants]

AG as BA: We almost gathered around fifteen to twenty thousand people at D-Chowk. LHWs, drivers, supervisors etc. It was all of us. From the whole of Pakistan. From Balochistan, Kashmir, KP, Karachi… Buses filled with LHWs came to attend the protest. They spent their own money to come.

We sat there the whole night and politicians and activists like Marvi Memon and Farzana Bari were with us as well. So we sat there the whole night – it rained very heavily, the thunder storm was very intense and it got really cold.

AJ: Finally the Supreme Court took notice of the protests and instructed the government to recognize them as full employees and increase their wages. This was an important breakthrough, but still the most important demands of LHWs were not met. They were not made regular government employees nor granted minimum wage salaries.

AG as BA: And then the order was passed saying that our work will be recognized and we will be given the minimum wage of Rs.7,000. Although our work was recognized, we were not made permanent.

On 29th of January 2011, all of us, the lady health workers from Sindh, gathered outside the Governor House and sealed the entire area around it and sat there from Fajr prayers in the morning. The next day during Fajr prayers, Rafiq Engineer came to our protest with food and ajrak. He sat with us on the ground and said “You are like my sisters and a meeting with the Chief Minister has been arranged.” Then we had our meeting and in that meeting Mr. Qaim Ali Shah really supported us and said, “I’m your elder brother and I’ll make sure that you get your Rs. 7000.” And we all got the Rs. 7000. It was the PPP government who supported us.

AJ: Meanwhile another major event happened. The 18th amendment to the constitution devolved responsibility for health service provision to the provinces. Soon LHWs faced new problems of lengthy delays before receiving their salaries. They held another big protest and closed off all national highways across the country.

AG as BA: After the 18th Amendment, when none of our rights were given to us, we did a protest on Chowk Mari. This was the border of Sindh and Punjab which had been completely sealed. It was 30th March 2011, and we were around 20,000 to 30,000 people who had come from all over Pakistan and we had been sitting for two days. Because of our protest, Hyderabad, Sibbi, Multan and the areas around these cities were blocked. The whole country was blocked.

[protest chants]

AJ: The state responded with police violence and hundreds of workers were beaten up on the streets and arrested until the court took notice yet again.

AG as BA: In the night when we were on the roads, they used tear gas on us and beat us up so much. Towards the end they said, start firing them. Around four hundred of our LHWs had also been arrested and put into jail. They kept demanding that Marvi Memon and Bushra Arain should be handed over to them. All of my girls stood up for me and refused to hand over us to the police.

… All of my girls came to me and said that we are going to get ourselves arrested but you must not go… If you go, then who will handle all of this? There were six cars filled with lady health workers from my district who went to get themselves arrested. They also held two whole buses hostage which were full of lady health workers from Karachi, Jhang, DG Khan, Balochistan etc. The Baloch women who never go out were also arrested. There were around 300-400 women in the jail. We were charged with murder, terrorism and God knows what... But then when the judge heard our case, he said, “Aren’t you people ashamed? You’ve charged such innocent people with so many acts!”

AJ: Encouraged by the court’s decision in their favor, they filed a petition to increase their pay scales and formalize the salary structure. By now they had confidence in their street presence and the support of women politicians such as Marvi Memon. They held another big protest and used new strategies to win public attention.

AG as BA: We registered a petition, and for forty days, we held a hunger strike at the Islamabad Press Club, where forty of us were present. And when one would leave, another would come into her place, from my district, from Karachi, from KP, and from Kashmir.

Then, we wrapped shrouds around us and carried a burning torch and announced that we will set ourselves on fire. They tried to convince us to not do this but we said that even if forty of us die more than 100,000 LHWs will be regularized and receive their rights.

We gave the time that at 3pm we will set ourselves on fire. And the media was there too. So at 2pm we threw petrol on ourselves.

[protest chants]

We said, today we will set ourselves on fire. The government should know. So, one girl set herself on fire. People were standing, and she did it quickly, her head, her hair, all of it got burnt.

Then they called us, a case was put forth, and now, thank God, at the start of every month lady health workers are receiving their salaries. From getting Rs. 3,000 now workers are being paid Rs. 22,000.

AJ: Their protest action worked and finally their salaries were regularized. Today LHWs are paid Rs. 22,000 per month and they have the status of government employees. Just as their situation was stabilizing, Covid-19 struck. Health service providers around the country were on the frontlines of this new battle. LHWs continued their work in communities without adequate PPE, masks, or sanitizers. The pandemic disrupted contraceptive supplies and many were unable to meet the needs of their communities.

In October last year LHWs, together with nurses, held a 7 day sit-in at D-chowk in Islamabad. They called for protections from infection, rationalization of their service structure, pension, gratuity and a new health risk allowance. This was their last major protest, and the results are yet to be seen.

If you want to read more about health providers’ problems and protests during Covid-19 please read our blog “Healthcare Workers’ Mobilization in Pakistan” or review our 3D timeline “Pakistani Healthworkers during the Pandemic” which is up on our website www.researchcollective.org. Our report on how Pakistan’s civic spaces evolved during the pandemic is also available for downloading from our website.

We hope you found this episode interesting and informative. We would like to thank Bushra Arain and other Lady Health Workers for giving us their valuable time. This podcast was produced in collaboration with Films d’Art. I would also like to thank SoundsGreat studios for their recording facilities. I hope you’ll tune in again for the next episode of our podcast series Khoj. Until then, take care and good bye.
Translation

Card image cap

قسط ۴: پاکستان کی لیڈی ھیلتھ ورکرز کی خدمت اور جدوجہد

Date:09-07-2021

Description: لیڈی ھیلتھ ورکرز کی تاریخ اور احتجاج کے بارے میں گفتگو

Transcript احتجاج کے نعرے

آسیہ جاوید: السلام علیکم۔ ہمارے پوڈ کاسٹ کھوج میں آپ سب کو خوش آمدید۔ اس پوڈ کاسٹ سیریز کا آغاز ہمارے تحقیقی ادارے کلکٹو فار سوشل سائنس ریسرچ نے کیا ہے۔ یہ ادارہ کراچی، پاکستان میں ہے اور ہم مختلف موضوعات پر تحقیق کرتے ہیں جن میں گنڈر، سماجی تحفظ، اکنومکس اور پالیسی کا تجزیہ۔ اس پوڈ کاسٹ سیریزکے ذریعے ہم اپنی تحقیق کے مختلف اور دلچسپ نتائج آپکو بتائیں گے۔ یہ کام پروگرام ایکشن فار امپاورمنٹ اینڈ اکاؤنٹبلٹی ارف A4EA کا حصہ ہے جو کہ برطانیہ کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اسٹڈیز میں مشتمل ہے۔

میرا نام آسیہ جاوید ہے اور آج کی قسط لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام اور ان خواتین کی جدوجہد کے بارے میں ہے جو ان خواتین نے اپنے بہتر روزگار کے لیے کی۔ اس پوڈ کاسٹ کے انٹرویوز جولائی اور اکتوبر 2019 کے دوران کیے گئے ہیں، A4EA پروگرام کے لیے۔ کراچی میں ہمارے دفتر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن کی بانی بشریٰ آرائیں اور ان کی ساتھیوں کے ساتھ ہم نے چائے پر بات چیت کی اور ان کی جدوجہد کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔

وزیراعظم بے نظیر بھٹو نےLHW پروگرام 1993 میں شروع کیا۔ اس پروگرام کا مقصد کمیونٹیز میں عورتوں کو فیملی پلاننگ کی سروسز مہیا کرنا تھا۔ جیسے جیسے یہ پروگرام بڑھتا گیا، اس کو بین الاقوامی سطح پر ایک اہم اور کامیاب پروگرام تسلیم کیا گیا۔ اس پروگرام کا مقصد گاؤں اور شہروں کی چھوٹی آبادیوں میں بنیادی اور تولیدی صحت فراہم کرنا ہے۔ آج تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار خواتین اس پروگرام میں کام کرتی ہیں جو ویکسینیشن، تولیدی صحت، کنٹراسیپٹو اور بنیادی دوائیں خاندانوں کو ان کے گھر تک پہنچاتی ہیں۔ LHWs اپنی کمیونٹیز کی رہنما مانی جاتی ہیں لیکن حکومت نے ان کے جائز مطالبات بہت مشکل سے مانے ہیں۔

بشریٰ آرائیں جو سندھ کے ڈسٹرکٹ جیکب آباد میں رہتی ہیں، انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ کب اور کیسے اس پروگرام میں شامل ہوئیں۔

بشریٰ آرائیں: میں نے میٹرک کرنے کے بعد دس سال بچے پیدا کیے۔ اس کے بعد میں نے فرسٹ ایئر میں ایڈمیشن لی اور پڑھنے جانے لگی۔ پھر جاب کے لیے اپلائی کیا 1995۔ وہاں میرے پڑوسی بھی آئے ہوئے تھے، جنہوں نے میرے شوہر کے کان بھرے کہ تمہاری بیوی اکیلے ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں جائے گی۔ میرا شوہر وہیں سے میرا بازو پکڑ کر واپس لے آیا۔ ایک سال بعد پھر پوسٹیں آئیں تو پھر میں نے جھگڑا کیا کہ گزارا نہیں ہوتا۔ میں نے دوبارہ انٹرویو دیا اور ڈائریکٹ سپروائزر ہوگئی۔ وہاں سے یہ کام شروع کیا۔

آسیہ جاوید: فرحت سلطانہ نے ہمیں بتایا کہ وہ اپنے گھر کی آمدنی بڑھانے کے لیے 1995 میں LHW بنیں۔

فرحت سلطانہ: اٹھارہ سال کی عمر میں ماں نے شادی کرادی۔ میرا شوہر ایک فیکٹری مزدور تھا ڈیلی ویجز پر۔ مجھے اس کو بھی سپورٹ کرنا تھا سو میں نے ایک آفس جوائن کیا۔ پھر میری ایک کولیگ نے جو اسلام آباد میں تھی بتایا کہ ایک ایسا پروگرام شروع ہو رہا ہے جس میں تم اپنے بچوں کو سپورٹ کرسکو گی اور انہیں ٹائم دے سکو گی۔ فیلڈ کا کام ہے جو بہت اچھا ہے۔ پھر میں نے اپلائی کیا 1994 سے۔ یہ سب سے بہترین کام ہے۔ بہت اچھا اور رضاکارانہ کام ہے۔ یہ ایک نیکی بھی ہے کیونکہ جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ ہمارا کام صحیح ہے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کا۔

آسیہ جاوید: بشریٰ نے ہمیں بتایا کہ یہ پروگرام مزید آگے بڑھا جب LHWs کو پولیو کے قطروں کی ذمہ داری دی گئی۔ ان کا کام اور ذمہ داری تو بڑھے لیکن ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ البتہ حکومت نے ان کے وظیفے میں تھوڑا اضافہ کیا، جو شروع میں 1900 روپے ماہانہ تھا اور کچھ سال بعد صرف 2500 روپے ماہانہ کیا گیا۔

بشریٰ آرائیں: ہماری میڈم ہوتی تھی حسنہ جہاں۔ وہ کوآرڈینیٹر تھیں اور ان جیسا کوآرڈینیٹر کوئی نہیں ہوا۔ انتہائی نائس لیڈی تھیں جن کے ہونے کی وجہ سے ہمیں جذبہ ہوتا تھا۔ وہ ہمیں سکھاتی تھیں۔ وہ ایک دو مرتبہ اچھی سپروائزرز کو اسلام آباد بھی لے گئیں۔ وہاں ہم دیکھتے تھے کہ ہمارا پروگرام جو اتنا اچھا ہے مگر ہمیں صرف 800 روپے اور 1000 روپے اور سپروائزر کو 4000 یا 5000 روپے ملتے ہیں، وہ بھی چھ سات ماہ بعد۔ یہ ساری چیزیں دیکھ کر 1998 میں میڈم مجھے ایک میٹنگ میں لے گئیں۔ وہاں کہا گیا کہ پولیو کے قطروں اور ٹی ٹی ویکسین کا کام بھی ان سے کرایا جائے۔ اس ایجنڈا پر میٹنگ تھی۔ کچھ نے کہا کہ یہ پڑھی لکھی نہیں ہیں یا اور باتیں کیں کہ آپ مڈل پڑھی خواتین کو کس طرح ٹی ٹی ویکسین لگانے دیں گے۔ سب کے بولنے کے بعد میں کھڑی ہوگئی اور کہا کہ ہم یہ کریں گی۔ ہم کرسکتی ہیں۔ جب ویکسین کا طئے ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ اب پولیو کے قطروں کا کام بھی ان سے لو۔

آسیہ جاوید: پولیو ویکسینیشن پروگرام کے شروع میںLHWs کو بیحد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ لوگوں میں پولیو کے قطروں کے بارے میں معلومات نہ ہونا اور افواہیں تھیں۔ LHWs نے لوگوں کے خدشات کو بہت ہوشیاری سے دور کیا۔

بشریٰ آرائیں: نوزائیدہ بچوں کو وہ باہر ہی نہیں نکالتے تھے چالیس دن تک کہ نظر لگ جائے گی۔ پہلے دن کا ماں کا دودھ پھینک دیتے تھے۔ جی سی جی کا پہلا ٹیکہ نہیں لگواتے تھے۔ پولیو کے قطرے نہیں پلواتے تھے کہ مردانگی ختم ہو جائے گی۔ ایسی بہت ساری چیزیں ہوتی تھیں۔ ویکسینیشن اور پولیو کے قطروں سے متعلق ساری ذہنیت ہم نے ختم کی۔ یہ ہم لوگوں نے ہی کیا۔ ہم خود پولیو کے قطرے پی کر دکھاتے۔ خود ویکسین لگا کر دکھاتے کہ یہ دیکھو یہ لگا کر میں مری ہوں یا مجھے کچھ ہوا ہے بچے پیدا کرنے کے سلسلے میں۔ یوں اپنے آپ پر تجربے کیے۔

آسیہ جاوید: بشریٰ نے ہمیں اپنے سب سے پہلے احتجاج کے بارے میں بتایا جو اس وقت ہوا جب ان کی اپنی ساتھی زچگی کے دوران انتقال کر گئیں۔ جب ان کے سینئرز نے اس حادثے کو بالکل ہی نظر انداز کیا تو بشریٰ نے حکومت کی ایک اہم میٹنگ کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

بشریٰ آرائیں: صبح سویرے میں نے کہا کہ کوئی پولیو کے قطرے پلانے نہیں جائے گا۔ پہلے ہم سب ادھر جائیں گے۔ تمام بالاافسر ہمیں دیکھ کر کانپنے لگے۔ میں نے کہا کہ ہم کوئی کام نہیں کریں گی، بھاڑ میں جائے پولیو۔ ہماری ایک میٹرنل مورٹلیٹی میٹنگ ہوتی ہے جس میں اگر سپروائزر کے تحت تیس لڑکیاں ہیں اور ان کے علاقے میں کوئی خاتون زچگی میں فوت ہو گئی ہے، بچہ فوت ہو گیا ہے یا صحت کا کوئی مسئلہ ہوا ہے تو بحث کی جاتی ہے۔ اس میں ڈاکٹرز آتی ہیں، یونیسیف کے نمائندے ہوتے ہیں مطلب کہ ہر ادارہ اس میٹنگ میں ہوتا ہے۔ وہاں میں بطور سپروائزر بتاتی ہوں کہ میری حد میں میٹرنل ڈیتھ ہوئی ہے۔ ایک پروفارما پر کیا جاتا ہے جس میں ہر چیز معلوم کی جاتی ہے اور اس میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ کچھ ہوا۔ ٹی ٹی لگی یا نہیں۔ نیو نیٹل کرایا تھا یا نہیں۔ اس نے کیا کچھ کھایا تھا۔ کس وقت وہ پہنچے تھے۔ کس وقت درد شروع ہوا۔ پہلے کتنے بچے تھے، وغیرہ۔ یہ سب کچھ لکھا جاتا ہے۔ سو میں نے وہ میٹنگ کینسل کر دی کہ کوئی بھی نہیں آئے گا، میں نے تمام سپروائزرز کو گھر واپس بھیج دیا۔ میں نے وہ میٹنگ کینسل کی اور کہا کہ کس چیز کی میٹنگ۔ مائیں مرجاتی ہیں تو ہم ان کی ایم این سی کرتے ہیں لیکن لیڈی ہیلتھ ورکر مرتی ہے تو کوئی پوچھنے نہیں آتا۔ میں نے اعلان کیا کہ اگلے روز ہم کالی پٹیاں باندھ کر اور گلے میں سوکھی روٹی باندھ کر احتجاج کریں گی۔ اعجاز جکھرانی صحت کا وفاقی وزیر تھا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ جیکب آباد میں ہم دو سو عورتیں اس کے دفتر کے باہر سڑک پر جاکر بیٹھ گئیں جہاں اس کا بنگلہ بھی تھا۔ وہ ہمارے علاقے کا کرتا دھرتا بھی تھا تو وفاقی وزیر بھی۔

آسیہ جاوید: بشریٰ نے لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن کا وجود رکھا اور لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اپنی تنخواہیں بڑھانے کے مطالبات کو منوانے کے لیے دھرنوں اور جلسوں کا راستہ اپنایا۔ فروری 2010 میں انہوں نے پولیو کمپیئن کا بائیکاٹ کیا۔ بشریٰ نے ان سب احتجاجوں کے بارے میں اخباری تراشے جمع کیے تاکہ وہ ان کو اسلام آباد میں اہم حکومتی لوگوں تک پہنچائیں۔

بشریٰ آرائیں: وہ اخبارات اور پریس ریلیز میں جمع کرتی تھی۔ میں کشمیر تک گئی اور پھر آخر میں اسلام آباد پہنچی۔ میں نے اس کی ایک بہت موٹی نوٹ بک بنا لی تھی۔ میں نے ایسی 35 نوٹ بک تیار کیں اور سپریم کورٹ جاکر وہاں ہیومن رائٹس کے ڈبے میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگی۔ میری تیار کی ہوئی نوٹ بک چونکہ موٹی تھیں اس لیے میں زبردستی ڈالنے کی کوشش کرتی رہی تو ایک شخص نے آکر مدد کرنے کے لیے کہا تو میں نے اس سے کہا کہ نہیں، اس کو میں نے ہی اندر گھسیڑنا ہے۔ یہ میرا مسئلہ ہے، میرا کام ہے۔

آسیہ جاوید: اس ہی سال ستمبر میںLHWs نے اپنا پہلا بڑا جلسہ کیا۔

احتجاج کے نعرے

بشریٰ آرائیں: ہم پندرہ سے بیس ہزار لوگ تھے ڈی چوک اسلام آباد پر، جن میں ایل ایچ ڈبلیو، ڈرائیور، سپروائزر شامل تھے جو پورے پاکستان بشمول کشمیر، بلوچستان، خیبرپختونخواہ، کراچی سے بسیں بھر کر اپنی جیبوں سے خرچہ کرکے آئے تھے۔ اس رات ہم بیٹھے رہے۔ ماروی میمن بھی ہمارے ساتھ تھی تو فرزانہ باری بھی۔ چونکہ ساری رات طوفان چلتا رہا اس لیے ہم نے زمین پر بچھائی ہوئی دریاں اپنے اوپر ڈال دیں۔

آسیہ جاوید: بالآخر سپریم کورٹ نے اس احتجاج کا نوٹس لیا اور حکومت کو آرڈر کیا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو سرکاری ملازم تسلیم کیا جائے اور ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں۔ یہ ایک اہم قدم تھا لیکن پھر بھیLHWs کے اہم مطالبات پورے نہیں ہوئے تھے جن میں ریگولرائز ہونا اور کم از کم اجرت ملنا شامل تھے۔

بشریٰ آرائیں: ہمیں آرڈر دیا گیا کہ آپ کو مزدور تسلیم کیا جاتا ہے اور کم از کم سات ہزار روپے ماہانہ تنخواہ آپ کو دی جائے گی۔ میرا کہنا تھا کہ اتنی محنت سے سپریم کورٹ میں کیس لگوانے کے بعد پیسے لے کر کیس ختم کروادیا کہ ابھی صرف مزدور تسلیم ہوئے، مستقل ملازم تو نہیں ہوئے۔ اس کے بعد ہم گھر چلے گئے۔ دسواں، گیارہواں اور بارہواں مہینے گزر گئے لیکن سات ہزار روپے نہیں ملے۔ پھر 29 جنوری 2011 ہم پورے سندھ کی لڑکیاں کراچی میں جمع ہوئیں، گورنر ہاؤس کے قریب فوارہ چوک پر۔ پورا علاقہ ہم نے سیل کر دیا۔ ہم پورا دن بیٹھے رہے، پھر دوسرے دن صبح فجر کے وقت رفیق انجنیئر آیا ایک اجرک لیکر اور ہمارے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کا ہمارے ساتھ زمین پر بیٹھنا ہمارے لیے عزت کی بات تھی۔ وہ کہنے لگا کہ آپ ہماری بہنیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور ان کے ساتھ آپ کی میٹنگ کروا رہے ہیں اور ہم آپ کا مسئلہ حل کریں گے۔ پیر کو ہماری میٹنگ ہوئی اور اس میں ہماری تعریف اور سپورٹ کی گئی۔ سائیں قائم علی شاہ نے کہا کہ میں آپ کا بڑا بھائی ہوں، میں آپ کی تنخواہ سات ہزار روپے ماہانہ کراؤں گا۔ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور ہمیں سات ہزار روپے ماہانہ ملنا شروع ہوئے۔

آسیہ جاوید: اس دوران آئین میں ایک بڑی اور اہم تبدیلی آئی۔ یہ اٹھارویں ترمیم تھی جس نے صحت اور اس سے متعلقہ معاملات صوبوں کے حوالے کر دیئے۔ اب LHWs کو نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن میں ان کی تنخواہوں میں لمبی تاخیر تھی جس کی وجہ سے انہوں نے ایک اور بڑا احتجاج کیا اور ملک کی اہم سڑکوں کو بلاک کردیا۔

بشریٰ آرائیں: جب اٹھارویں ترمیم ہوئی اور اس کے نتیجے میں ہمیں کوئی فایدہ نہیں ہوا تو ہم نے چوک ماڑی پر دھرنا دیا جس کے نتیجے میں پورا پاکستان سیل ہوگیا۔ اوباوڑو پر سندھ اور پنجاب کا بارڈر تھا یہ۔ 23 مارچ 2011 کو ہم صبح سے دوسرے دن تک بیٹھے رہے، اس وقت ہم بیس پچیس ہزار لوگ تھے۔ وہاں سے حیدرآباد تک بند ہوگیا، دوسری جانب سبی تک بند ہوگیا تھا تو تیسری جانب ملتان سے آگے تک بند تھا۔

احتجاج کے نعرے

بشریٰ آرائیں: وہاں سے حیدرآباد تک بند ہوگیا، دوسری جانب سبی تک بند ہوگیا تھا تو تیسری جانب ملتان سے آگے تک بند تھا۔ پاکستان جام ہوگیا تھا۔

آسیہ جاوید:ریاست نے اس احتجاج کا سختی اور پولیس نے تشدد سے جواب دیا اور سینکڑوںLHWs کو مار پیٹ کی اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ کورٹ نے دوبارہ اس تشدد کا نوٹس لیا۔ بشریٰ آرائیں: ہم پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا گیا، بہت زیادہ مارپیٹ ہوئی۔ تقریباً چار سو لڑکیاں گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالی گئیں اور کہا کہ بشریٰ اور ماروی ہمارے حوالے کرو۔ میری لڑکیاں کھڑی ہو گئیں کہ ہم سب گرفتاریاں دیں گی لیکن آپ نے گرفتار نہیں ہونا ہے کیونکہ آپ کے گرفتار ہونے کے بعد قیادت کون کرے گا۔ اس طرح ان کی چھ گاڑیاں خود تھانے چلی گئیں۔ انہوں نے کراچی کی دو بسیں پکڑی ہوئی تھیں۔ ڈیرہ غازی خان کی لڑکیاں تھیں۔ بلوچستان کی لڑکیاں بھی گرفتار ہوئیں جو کبھی گھروں سے بھی نہیں نکلتی تھیں۔ کوئی تین چار سو لڑکیاں تھیں جیلوں میں۔ ہم پر قتل اور دہشت گردی کے ایکٹ لگائے گئے، کل سات ایکٹ لگائے گئے تھے ہمارے خلاف۔ پھر جب جج نے کیس سنا تو اس نے کہا کہ شرم نہیں آئی کہ معصوم لوگوں پر آپ نے اتنے ایکٹ لگائے ہیں۔

آسیہ جاوید: کورٹ کے اس فیصلے سے LHWS کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے اپنے پے اسکیل کو بڑھانے اور سیلری اسٹرکچر کو فارملائز کرنے کے لیے ایک پٹیشن دائر کی۔ اب لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اپنے احتجاج پر اعتماد تھا اور ان کو ماروی میمن جیسی خاتون سیاستدان کی حمایت بھی حاصل تھی۔ انہوں نے ایک اور بڑا احتجاج کیا اور عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے نئی حکمت عملی سامنے لائیں۔

بشریٰ آرائیں: پھر ہم نے پٹیشن داخل کی اور چالیس دن کی بھوک ہڑتال کے ساتھ ایک دھرنا دیا اسلام آباد پریس کلب پر، جس میں ہم چالیس لوگ تھے۔ ہمارے لوگ باری باری اس بھوک ہڑتال میں شامل ہوتے۔ زیادہ تر کراچی، میرے ضلع، کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے لوگ شریک ہوئے۔ ہم میں اتنا جذبہ تھا کہ ہم نے مشعلیں بنائیں، کفن باندھے، ہم نے پیٹرول لیا۔ ہمیں کہا گیا کہ اس میں پانی ڈالو، رنگ ڈالو لیکن ہم نے کہا کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا کہ ہم چالیس لوگ ہی مریں گے لیکن سوا لاکھ لوگ تو مستقل ہو جائیں گے۔ ہم نے اپنے آپ پر پیٹرول پھینک لیا۔

احتجاج کے نعرے

بشریٰ آرائیں: ہم نے اس دوران ٹائم دیا ہوا تھا کہ تین بجے ہم خود کو آگ لگا دیں گے۔ وہاں میڈیا بھی جمع تھا۔ دو بجے ہم نے خود پر پیٹرول چھڑکا اور اعلان کیا کہ چونکہ کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے، کوئی نہیں آرہا ہے اس لیے ہم اپنے آپ کو آگ لگانے جا رہے ہیں۔ ہم سے ماچس چھین لی، مشعلیں چھین لیں لیڈی پولیس نے، وہ ہمیں سمجھا بھی رہی تھیں لیکن ہم نے کہا کہ آج ہم آگ ضرور لگائیں گی تاکہ حکومت کو پتہ لگے۔ اس دوران ایک لڑکی نے خود کو آگ لگا ہی دی، جس کے بال جل گئے۔ پھر ہمیں بلایا گیا، کیس لگا جس کے نتیجے میں اب ہر پہلی تاریخ کو تنخواہیں ملتی ہیں جو تین ہزار سے بڑھ کر بائیس ہزار روپے ہوگئی ہیں۔

آسیہ جاوید: یہ احتجاج کامیاب ہوا اور ان کی تنخواہیں ریگولرائز ہو گئیں۔ آج LHWs کی تنخواہیں 22,000 روپے ماہانہ ہیں اور ان کا عہدہ سرکاری ملازم کا ہے۔ جیسے ہی ان کی صورتحال سنبھل رہی تھی کووڈ-19 کی آمد ہوگئی۔ پورے ملک کے ہیلتھ سروس پرووائیڈرز اس وبا سے لڑنے کے لیے آگے آگے تھے۔ LHWs نے اپنا کام معیاری پی پی ای، ماسک اور سینیٹائزر کے بغیر جاری رکھا۔ وبا کی وجہ سے کنٹراسیپٹو کی سپلائی میں کمی آئی اور LHWs ان کمیونٹیز میں اپنا کام نہیں کر پا رہی تھیں۔ اکتوبر 2020 میں LHWs اور نرسز نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر سات دن کا دھرنا دیا۔ ان کے مطالبات میں انفیکشن سے تحفظ، سروس اسٹرکچر، پنشن اور ایک ہیلتھ رسک الاؤنس شامل تھے۔ یہ ان کا آخری بڑا احتجاج تھا جس کے نتائج اب سامنے آئیں گے۔

اگر آپ ہیلتھ پرووائیڈرز کے مسائل اور احتجاج کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو ہمارا بلاگ "ھیلتھ کئر ورکرز موبیلئزیشن ین پاکستان" ضرور پڑھیں اور تھری ڈی ٹائم لائن"پاکستانی ھیلتھ ورکرزڈیرنگ دا پینڈیمک" ضرور دیکھیں جو ہماری ویب سائٹ www.researchcollective.org پر موجود ہے۔ کووڈ-19 کی وبا کے دوران پاکستان کی بدلتی ہوئی سوک اسپیس پر رپورٹ بھی ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے۔

ہمیں امید ہے کہ یہ قسط آپ کو معلوماتی اور دلچسپ لگی ہوگی۔ یہ پوڈ کاسٹ فلم ڈی آرٹ کے تعاون سے بنائی گئی ہے اور ہم ساؤنڈز گریٹ اسٹوڈیو کی ریکارڈنگ سہولت کے شکر گزار ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اس پوڈ کاسٹ سیریز کی اگلی قسط ضرور سنیں گے۔ تب تک کے لیے خدا حافظأ۔
Translation

Card image cap

Episode 3: Pakistani Students, Intersectionality and the Pandemic

Date:31-05-2021

Description: Covid-19 brought a host of uncertainties for Pakistani students. Learning losses amplified not only because of lack of internet access but because of students' class, gender, ethnicity and locality.

Transcript حلیمہ حسن: سلام علیکم۔ ہمارے پوڈ کاسٹ کھوج میں آپ سب کو خوش آمدید۔ اس پوڈ کاسٹ کا آغاز ہمارے تحقیقی اِدارے کلیکٹو فار سوشل سائنس ریسرچ نے کیا ہے۔ یہ ادارہ کراچی، پاکستان میں واقع ہے اور ہم مختلف موضوعات پر تحقیق کرتے ہیں جن میں صنفی امور، سماجی تحفظ، معیشت اور پالیسی تجزیہ شامل ہیں۔ میرا نام حلیمہ حسن ہے اور میں 2019 کی گریجویٹ ہوں۔ میں اس ادارے میں بطور ریسرچ اسسٹنٹ تقریباً ڈیڑھ سال سے کام کررہی ہوں۔ میں یہاں ڈاکٹر اسد سعید کے ساتھ معیشت، صنفی امور، سیاست، مزدوروں کی اجرتیں اور دیگر امور پر کام کرتی ہوں۔ میرے ساتھ آج یہاں آسیہ جاوید بھی موجود ہیں جو کلیکٹو میں میرے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ہیلو آسیہ

!

آسیہ جاوید: ہیلو حلیمہ اور سب کو سلام علیکم۔ میں کلیکٹو فار سوشل سائنس ریسرچ میں عائشہ خان کے ساتھ صنفی امور، سیاست اور سوک اسپیس پر تحقیق میں شامل ہوں۔ آج کی پوڈ کاسٹ میں ہم جن مسائل کو زیر بحث لائیں گے ان کا تعلق کووڈ-19 کی وبا کے دوران پاکستانی طلبہ کو درپیش مسائل سے ہے۔ یہ کام ایکشن فار امپاورمنٹ اینڈ اکاؤنٹبلٹی پروگرام کا حصہ ہے جو کہ برطانیہ کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اسٹڈیز کے زیر اہتمام ہے۔ اس کے ذریعے ہم نے گزشتہ برس جون تا دسمبر نائجیریا اور موزمبیق کے ساتھ مل کر ایک اسٹڈی کی تھی جس میں ہم نے کووڈ-19 کے دوران اپنے ممالک کے بدلتے ہوئے حالات کو ذرائع ابلاغ کے جائزے، انٹرویوز اور آبزرویٹری پینل کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی۔ ہم پاکستانی طلبہ کے مسائل پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھے، جن پر ہم نے ایک بلاگ لکھا اور ٹائم لائن بنائی جو کہ ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اس کا اپنے ساتھیوں سمیت مطالعہ کرسکتے ہیں۔

حلیمہ حسن: ہمارے پاس اس بلاگ کو لکھنے کا ایک بنیادی ڈھانچہ موجود تھا کیونکہ گزشتہ برس ہم نے کووڈ-19 سے متعلق ایک بلاگ سیریز شروع کی تھی جس میں ہم نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ بعنوان " citizen-covid-19- government: Pakistan's response" سے استفادہ کیا تھا۔ اس رپورٹ میں کووڈ-19 کے حوالے سے آٹھ جوکھم کے شکار گروپوں کی نشاندھی کی گئی تھی اور ہم نے ان گروپوں میں سے کچھ پر کووڈ-19 کے اثرات سے متعلق مختلف بلاگس میں لکھا تھا۔ طلبہ پر ہمارے بلاگ کی ابتدا ڈیجیٹل تفریق سے ہوئی تھی کیونکہ ذرائع ابلاغ میں زیادہ تر اسی پر بات ہو رہی تھی، بالخصوص آن لائن تعلیم تک رسائی سے متعلق۔ تو آسیہ! آپ نے NCS کی میڈیا ٹریکنگ کے ذریعے طبقاتی مسائل کے بارے میں کیا سمجھا؟

آسیہ جاوید: ڈیجیٹل تفریق ایک اہم مسئلہ ہے اور پاکستان میں طلبہ اور اساتذہ مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور زیادہ تر لوگوں کے پاس انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل آلات موجود نہیں ہیں۔ ہم نے جیسے جیسے تعلیم سے متعلق مسائل پر تحقیق کی ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ مسائل ڈیجیٹل تفریق سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ طالب علم رہنما رائے علی نے مجھے بتایا تھا کہ

اس پراجیکٹ پر کام کرتے ہوئے مجھے سندھ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر صاحبہ نے بتایا کہ طالب علم آن لائن کلاسز لیتے ہوئے شرماتے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر کے گھر خستہ حال ہیں۔ جب ان پروفیسر صاحبہ نے طلبہ کے گھروں کو آن لائن کلاسز کے ذریعے دیکھا تو انہیں سمجھ میں آیا کہ طالب علم مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ فرق یونیورسٹی میں واضح نہیں ہوتا کیونکہ وہاں پر سب برابر ہوتے ہیں۔ کچھ طالب علم آن لائن کلاسز درختوں کے نیچے تو کچھ سیڑھیوں پر بیٹھ کر لیتے رہے کیونکہ ان کے پاس علیحدہ بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔

ہماری حکومتوں کا رویہ بھی طلبہ کے طبقات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے مسائل اکثر حکومت تک پہنچتے ہی نہیں ہیں اور اگر پہنچتے ہیں تو ان کے حل پر انتہائی سست رفتار عمل درآمد ہوتا ہے۔ مثلاً جو طالب علم گزشتہ برس MDCAT دے رہے تھے، ان کے کئی مطالبات نظر انداز کرکے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے بولا کہ MDCAT طلبہ کے مسائل وزارت صحت حل کرے گی کیونکہ وہ میڈیکل کے طالب علم ہیں۔

اور جب بات CAIE کے طلبہ پر آئی، جن میں سے اکثر کا تعلق اوپری طبقے سے ہے، تو حکومت نے ان کے مسائل کو سنا اور سمجھا۔ یہ اس لیے بھی ہوا کہ برٹش کونسل اور نجی اسکول ان طالب علموں کی حمایت کررہے تھے۔ یہ ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام طلبہ کے مسائل کو سمجھے اور ان کا کوئی حل تلاش کرے۔ حال ہی میں CAIE کے طلبہ امتحانات منسوخ کرانے اور school assessed grades حاصل کرنے کے لیے احتجاج کررہے تھے۔ جب وکیل اور ایکٹوسٹ جبران ناصر نے طلبہ کی حمایت کی اور حکومت پر دباؤ ڈالا تو مقررہ امتحان بھی ملتوی ہوگئے اور اب اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو SAGs ملیں گے یا پھر وہ نومبر میں امتحان دیں گے تاہم MDCAT کے امتحانات پر تاحال کوئی مناسب فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ پاکستان میں طلبہ کو اپنی بات منوانے کے لیے انٹرنیشنل بورڈ یا پرائیویٹ اسکولوں کی مستقل حمایت کی ضرورت ہے جبکہ ہماری حکومت میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے جو تمام طبقات کے مطالبات پر یکساں توجہ دے۔ اسی وجہ سے نچلے طبقات کے طالب علموں پر کووڈ-19 کے اثرات کافی زیادہ ہوئے۔ حلیمہ حسن: بالکل۔ طبقات کا انتہائی اہم کردار ہے کووڈ-19 کے اثرات میں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم بلاگ لکھ رہے تھے تو ہم نے طبقاتی مسائل کا مشاہدہ کیا تھا۔ ایک اور بات جو ہماری تحقیق نے انتہائی واضح کی تھی وہ تو نسلی پس منظر اور علاقے کا کردار تھا۔ یہ دونوں عناصر پاکستانی طلبہ پر کووڈ-19 کے اثرات کی شدت کافی بڑھا دیتے ہیں اور اس سے متعلق اعداد و شمار اور حقائق ہمارے بلاگ میں شامل ہیں جو کافی سنگین اور خطرناک ہیں۔ جس ڈیجیٹل تقسیم کی ہم بات کرتے ہیں اس میں مزید بٹوارے ہیں، جیسا کہ دیہی اور شہری تقسیم، صوبوں کے درمیان تقسیم اور پھر خود صوبوں میں تقسیم۔ شہروں اور دیہات میں ایک بہت بڑا فرق انٹرنیٹ کی سہولت کا تھا۔ جب گزشتہ برس حکومت نے آن لائن کلاسز کا فیصلہ کیا تو سینکڑوں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے کیونکہ ان کے پاس یا تو انٹرنیٹ موجود نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو بدتر حالت میں۔ بلوچستان اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں یہ مسئلہ اور بھی بدترین صورتحال میں ہے کیونکہ ایسے کئی علاقوں میں حکومت نے حفاظتی اقدامات کے تحت انٹرنیٹ سروس معطل کر رکھی ہے۔ خصوصی گروپس جیسا کہ ہزارہ کے لیے تو اور بھی زیادہ سنگین مسائل ہیں، ان کے ہاں تو عام حالات میں بھی تعلیم کا تسلسل مشکل ہوتا ہے، ان کے نسلی پس منظر، رہائش کی جگہ اور سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے، ایسے میں وبا کے دوران ان کی مشکلات کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ اس سب کے درمیان کچھ اچھی خبریں بھی سامنے آئیں، جیسا کہ زونگ پاکستان کا یونیورسل سروس فنڈ کے ساتھ معاہدہ جس سے تیز تر انٹرنیٹ بلوچستان کے دیہی علاقوں تک پہنچایا جائے گا۔

آسیہ جاوید: ہاں، ایسی کچھ خبروں سے امید تو جاگی لیکن حکومت کی جانب سے جو پالیسیاں آئیں ان کی صحیح منصوبہ بندی نہیں تھی اور نہ ہی ان پر درست عمل درآمد ہوا۔ ہماری انتظامیہ نے افسوس کے ساتھ اکثر طلبہ کے احتجاج کا جواب تشدد سے دیا۔ ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود ہمارے طالب علموں نے نہ صرف تعلیم کی کوشش جاری رکھی بلکہ اپنے حقوق کے لیے بھی کام کیا۔

حلیمہ حسن: میں یہ سوچتی ہوں کہ اگر ہم آج گریجویٹ ہورہے ہوتے اس صورتحال میں تو یہ کتنا تکلیف دہ ہوتا۔ اتنی ساری چیزیں چھوٹ گئی ہیں اس وبا کے باعث۔

آسیہ جاوید: ہاں بالکل۔ طالب علموں کے لیے یہ بہت بڑا نقصان ہے، صرف پڑھائی کے معاملے میں ہی نہیں بلکہ سماجی طور پر بھی۔ ہر طالبِ علم کی اپنے اسکول، کالج یا یونیورسٹی سے خصوصی توقعات ہوتی ہیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ ان طلبہ کو آن لائن کلاسز کے لیے، امتحان دینے میں اور گریجویٹ ہونے میں کیا محسوس ہورہا ہوگا۔

حلیمہ حسن: ہاں ایک جذباتی زیاں ہے۔ بے شمار خواب، خواہشات، منصوبے جو لاحاصل رہ گئے ان کے لیے۔ جیسے میں جب اسکول میں تھی تو فیئر ویل ایک انتہائی انتظار کیا جانے والا دن ہوتا تھا، تقریب ہوتی تھی جہاں ڈریسز اور ساڑھیوں کا ایک علیحدہ جوش ہوتا تھا۔ جیسا کہ میں نے LUMS میں پڑھا اور وہاں بھی کلاس میں ہونا، سیمینار میں شرکت کرنا اور تقریبات میں شرکت کرنا ایک علیحدہ تجربہ تھا۔ آخری سال کے طلبہ یعنی سینئرز کے لیے بھی مختلف تقاریب اور تہوار پلان کیے جاتے جیسا کہ کلر ڈے جب ہرکوئی ایک ہی رنگ کے کپڑے پہنتا۔ کالج اور اسکول کا تجربہ بہت کمیونل ہوتا ہے اور آن لائن لرننگ سے یہ انتہائی محدود حد تک ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ اس تمام تر نقصان کا بھی اپنا ایک جذباتی اور ذہنی اثر ہے جو تمام طلبہ کو محسوس ہوتا ہے اور پھر اس میں طبقاتی، نسلی اور علاقائی مسائل بھی شامل ہوجاتے ہیں۔

آسیہ جاوید: ہاں حلیمہ، ملک بھر میں طلبہ کے لئے یہ ایک مشکل وقت ہے لیکن کافی طلبہ نے آن لائن سیشنز/گیمز یا مزاحیہ میمیز کے ذریعے اس مشکل وقت سے گزرنے کی کوشش کی ہے۔ تم نے مجھے ایک فیس بک پیج کے بارے میں بتایا تھا "zoom memes for quarantine" جہاں دنیا بھر کے طلبہ نے اپنے وبا اور آن لائن لرننگ کے تجربات بتائے تھے جو ان کے لیے کافی کتھارٹیک معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ آن لائن اسپیسز میں طلبہ کے لئے رہنا مشکل ہو گیا تھا لیکن اس وبا کے دوران انٹرنیٹ کا استعمال بہت اہم اور تخلیقی طور بھی استعمال ہوا ہے۔

حلیمہ حسن: بلاشک یہ آن لائن جگہیں کووڈ-19 کے دوران انتہائی اہم ثابت ہوئیں۔ زوم میمیز والے گروپ میں بھی 3۔882 ہزار میمبر ہیں۔ جیسا کہ تم نے کہا کہ پاکستانی طلبہ نے بھی ان جگہوں کا خصوصی اور اہم چیزوں کے لیے استعمال کیا، خاص طور پر طالبات نے۔

آسیہ جاوید: بالکل۔ طالبات نے ان آن لائن جگہوں کا الگ الگ طریقوں سے فائدہ اٹھایا تاکہ وہ اپنی آواز بلند کرکے اپنے مطالبات پیش کرسکیں۔ ایک سرگرم طالبہ ہیں کلثوم فاطمہ جو کہ پنجاب یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی طالب علم ہیں۔ کووڈ-19 کی وجہ سے آج وہ ہمارے ساتھ اسٹوڈیو میں موجود نہیں ہیں لیکن ہم انہیں کال کرکے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس وبا کے دوران سرگرم طالبات نے کن طریقوں سے احتجاج کیا آسیہ جاوید: سلام علیکم کلثوم۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتی ہیں کہ کووڈ-19 کے دوران طالبات کے بڑے مسائل کیا تھے؟

کلثوم: اس دوران جو مسائل درپیش رہے ان میں انٹرنیٹ اور جگہ کے مسائل جیسا کہ جعفر آباد اور وزیرستان میں زیادہ تھے۔ تمام تعلیمی اداروں جیسا کہ پنجاب یونیورسٹی میں طالبات کی تعداد زیادہ ہے جن میں سے اکثر کا تعلق دیہی علاقوں سے تھا جو تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث اپنے دور دراز کے علاقوں میں واپس چلی گئیں جہاں ان میں سے اکثر کی شادیاں بھی کرادی گئیں اور ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔

حلیمہ حسن: ہاں، ہمیں بھی اپنی تحقیق کے دوران یہ معلوم ہوا کہ کووڈ-19 کے طالبات پر کہیں زیادہ اثرات ہوئے ہیں کیونکہ ہمارے اسپیس اور رویے انتہائی صنف کی بنیاد پر ہوتے ہیں جس کی بنا پر طالبات کو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ این سی ایس پراجیکٹ کی میڈیا ٹریکنگ کے دوران ہمیں یہ سمجھ آیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران اسکول اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی طالبات نے جنسی ہراسانی کی بات کی۔ کیا آپ ہمیں یہ بتا سکتی ہیں کہ طالبات نے اس مسئلے پر آن لائن اور آف لائن کس طرح احتجاج کیا اور اس کے کیا نتائج سامنے آئے؟ کلثوم: آن لائن ہراسمنٹ کے معاملے میں می ٹو موومنٹ نے شعور بڑھانے کا کردار ادا کیا ہے۔ ناخواندگی کا معاملہ وبا کے دوران اساتذہ کی کمی کی وجہ سے اور زیادہ سنگین ہو گیا۔ جسمانی دوری نے ہراساں کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی، اسی وجہ سے ہم طالبات کو ہراساں کرنے کی جانچ پڑتال کے لیے کمیٹیوں کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔

آسیہ جاوید: کیا آپ کے خیال میں کووڈ-19 کی وبا کا اس وبا سے براہ راست تعلق ہے؟

کلثوم: اس دوران طالبات کے لیے آن لائن اسپیس تو بڑا جبکہ فزیکل اسپیس کم ہوا۔ جس سے ہراسمنٹ کے مرتکبین کو موقع مل گیا کہ اب ان کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا۔ انہوں نے آن لائن ہرسمنٹ شروع کر دی۔ جس پر طالبات نے می ٹو کو مثال بنا کر بولنا شروع کر دیا۔

آسیہ جاوید: یہ کافی سنجیدہ صورتحال ہے اور افسوس کی بات ہے کہ یہ اب بھی چل رہا ہے اور اس کا خاتمہ کہیں نظر نہیں آ رہا ہے۔ ان حالات میں طالب علم خود کیا کرسکتے ہیں اور کن سرکاری انتظامات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ کیا آپ اس سلسلے میں کوئی آن لائن یا آف لائن مثال دی جا سکتی ہیں۔

حلیمہ حسن: یہ کافی اہم گفتگو ہےاور مجھے یقین ہے کہ یہ نہ صرف ہمیں بلکہ ہمارے سننے والوں کو بھی اہم معلومات پر غور وفکر کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ ایک بار پھر آپ کا بہت شکریہ اور خدا حافظ۔ آسیہ کچھ دن پہلے ہم دونوں یہ بات کررہے تھے کہ ہمیں بھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا گریجویشن کیے ہوئے اور می ٹو موومنٹ کا آغاز 2018 میں ہی ہوا تھا جب ہم کالج میں تھے۔ اس وقت سے آج تک کچھ چیزیں ایک جیسی ہیں اور اور کچھ انتہائی مختلف

آسیہ جاوید: وہ احتجاج کی اسپیس بالکل ہی الگ ہوتی تھی، جہاں آپ کے دوست اور دیگر ساتھی آپ کی سپورٹ میں اسی فزیکل اسپیس میں شامل ہوتے تھے۔ آن لائن احتجاج کے بہت فوائد ہیں جیسا کہ اہم مسائل پر اپنی آواز بلند کرنا لیکن یہ بہت ایموشنلی ٹیکسنگ بھی ہوسکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ جذباتی طور پر ڈرین ہوجاتا ہے۔ فزیکل اسپیس میں می ٹو موومنٹ کا ہونا اہم تھا کیونکہ سب دوست اور ساتھی یکجھتی میں کھڑے ہوتے ہیں۔ حلیمہ! لمس کی می ٹو موومنٹ کے مقابلے میں تمہارا 2020 کا تجربہ کیسا تھا؟

حلیمہ حسن: فزیکل اور آن لائن اسپیس کا فرق تو بالکل تھا۔ جب لمس میں ایک بہت بڑے پرابلمیٹک گروپ کا پتہ چلا جس میں عورتوں سے متعلق نفرت اور پرتشدد پوسٹیں تھیں تو کیمپس پر انتہائی عجیب کیفیت تھی، عدم تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ اس گروپ میں 600 کے قریب مرد تھے، خواتین کو اپنے مرد دوستوں سے نبھانا مشکل ہو رہا تھا کیونکہ سب کا بھروسہ اٹھ گیا تھا۔ جب پچھلے سال لمس کی آن لائن می ٹو موومنٹ تھی تو وہی عدم تحفظ کا احساس تو تھا لیکن کچھ اور عناصر بھی تھے، جیسا کہ تم نے کہا کہ می ٹو موومنٹ کی یکجہتی میں کافی فرق آیا, وہ کافی تبدیل ہو گئی تھی کیونکہ سب اپنے گھروں میں، چار دیواری میں بند تھے البتہ یہ ضرور ہے کہ سب نے آن لائن اسپیس استعمال کرنے کی کوشش ضرور کی، بالخصوص واٹس ایپ اور فیس بک پر خواتین کے لیے مختص گروپوں کے ذریعے جو کہ ایک انتہائی ہمت والی بات تھی۔ تو اس طرح آن لائن اسپیس نے ایک بہت بڑی رسائی دی ، بیداری پیدا کی، وکٹم کو موقع دیا اپنے حقائق اور جذبات سے متعلق بات کرنے کا۔ لیکن یہ سب اوور ویلمنگ بھی ہوگیا جب ہراساں کرنے والے آپ کے ساتھ ہی ایک آن لائن کلاس میں آپ کے سامنے موجود ہو اور آپ اصل کلاس کی طرح علیحدہ نہیں ہوسکیں تو یہ ٹگرینگ ہوجاتا ہے جبکہ سپورٹ اور اور کے ذرائع وبا کی وجہ سے محدود ہو گئے تھے۔

آسیہ جاوید: اور جیسا کہ کلثوم نے کہا کہ وبا کے دوران فزیکل فاصلہ ہونے کی وجہ سے قصور وار لوگوں کو ایک تحفظ حاصل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی رعایت ہو جاتی ہے۔ تاہم فزیکل اسپیس میں آکر احتجاج کرنے کے بھی اپنے مسائل ہیں۔ جب قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے طلباء نے ہراساں کرنے کے خلاف احتجاج کیا تو طلبہ کو گرفتارکر لیا اور طالبات کو دھمکیاں دیں۔ ہراساں کرنے والا اسکالرشپ آفس میں کام کرتاہے جس کی وجہ سے وہ طالبات کو آسانی سے بلیک میل کر رہا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنسی مسائل ہر طبقے میں سنجیدہ نوعیت کے ہیں مگر پاکستانی طلبہ کے مسائل میں انٹرسیکشن کا بہت بڑا کردار ہے جہاں ان کی مختلف شناختیں جیسا کہ جنس، طبقہ وغیرہ کووڈ-19 جیسی آفات کے اثرات بڑھا دیتی ہیں۔

حلیمہ حسن: بالکل۔ مثلاً جب کووڈ-19 کے دوران ایل جی ایس کی طالبات نے ہراساں کیے جانے کے اپنے سنگین اور تکلیف دہ واقعات بیان کیے تو کافی شور شرابہ کے بعد اس پر ایکشن لیا گیا اور قصور وار اساتذہ کو نکال دیا گیا جبکہ کے آئی یو میں ایسی ہی صورتحال پر ردعمل یکسر مختلف تھا۔ اس کا تعلق طبقے کے ساتھ علاقے سے بھی ہوتا ہے جہاں بڑے شہروں میں سنجیدہ مسائل کو پھر بھی توجہ مل جاتی ہے لیکن دور دراز کے علاقوں میں توجہ بالکل ہی نہیں دی جاتی۔ تعلیمی مسائل میں ایسی صورتحال بھی ہوتی ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے طالب علموں کو انٹرنیٹ کے لیے روزانہ گھنٹوں سفر کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح بلوچ طالب علموں کے لانگ مارچ کی وجہ بھی اسکالرشپ اور مختص سیٹوں کی منسوخی تھی جس کی وجہ سے ان کے لیے دوسرے صوبوں میں تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوگیا اور انہیں اپنے صوبے میں اچھی تعلیم میسر نہیں ہے۔

آسیہ جاوید: بالکل، یہ تمام مطالبات انٹرسیکشنل ہیں اور طالب علم اپنی معاشی حیثیت کی وجہ سے محروم حصہ ہیں۔ جب میں طالب علم رہنما رائے علی سے طلبہ کے مطالبات کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہی تھی تو مجھے پتہ چلا کہ اس وقت ان کا سب سے بڑا مطالبہ اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی ہے جن پر پابندی کو 36 برس ہو گئے ہیں اور طلبہ کے پاس اپنے انگنت مسائل پیش کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ رائے علی نے ہمیں بتایا کہ ہمارا بنیادی مطالبہ ہے کہ کچھ ادارے بنائے جائیں جن میں طلبہ یونین کی بحالی اہم ترین ہے۔ بڑے تعلیمی اداروں میں ملازمین کی تو یونین ہے لیکن طلبہ اس سے محروم ہیں جو کہ تعداد میں سب سے زیادہ ہیں۔ آسیہ جاوید: ضرورت اس بات کی ہے کہ جنسی ہراسانی سے متعلق کمیٹیوں میں خواتین کو شامل کیا جائے کیونکہ لڑکیاں مردوں کے سامنے اپنے ان مسائل کو پیش کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔

حلیمہ حسن: جی آسیہ یہ بہت اہم نظام ہے جو ابھی تک ہمارے ہاں صحیح طور قائم نہیں ہوا ہے اور کووڈ-19 ان تمام مسائل کو سامنے لے آیا ہے۔ 2020 ایک مشکل لیکن اہم سال تھا جس میں طلبہ اور تعلیم کے مسائل سامنے آئے۔ دنیا اس مقام پر آجائے گی یہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا، اتنی غیر یقینی صورتحال، حقیقی اور امکانی نقصانات کا خوف، اس سب کے درمیان طلبہ رستوں پر آئے اور اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی بہت کوشش کی۔ آسیہ جاوید: بالکل حلیمہ۔ اس وبا کے بعد ہمارا پورا تعلیمی نظام ہل گیا اور ہمیں احساس ہوا کہ ہماری حکومت اور تعلیمی اداروں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایک اچھا آن لائن تعلیمی نظام بنائیں جو ہر طالبِ علم تک پہنچ سکے۔ ہمارے کچھ ماہرین نے ان مسائل کے جواب میں کچھ حل بتائے ہیں جن میں تعلیمی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اہم ہیں۔ یہ پہلی یا آخری وبا نہیں ہے اور ہمیں بدلتے ہوئے حالات میں نئی ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا۔ اس وقت طلبہ کا سب سے بڑا مطالبہ اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی ہے۔ حلیمہ حسن: امید ہے کہ یہ پوڈ کاسٹ آپ کے لیے معلوماتی ثابت ہوا ہوگا۔ اگر اس موضوع پر آپ کو دیگر معلومات چاہیے تو ہمارا بلاگ پاکستانی طلبہ اور وبا:2020 کا جائزہ ملاحظہ کیجئے اور ہماری ٹائم لائن میڈیا ٹریکنگ ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے۔

آسیہ جاوید: یہ پوڈ کاسٹ ہم نے فلم ڈی آرٹ کے ساتھ مل کر بنایا ہے۔ میں ساؤنڈ گریٹ اسٹوڈیو کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جہاں ہمارے پوڈ کاسٹ کی ریکارڈنگ ہوئی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کو ہماری پوڈ کاسٹ سیریز کھوج کی تیسری قسط پسند آئی ہوگی۔ اگلی قسط ضرور سنیے گا۔

خدا حافظ۔
Translation Haleema Hasan (HH), Asiya Jawed (AJ), Rai Ali (RA), Kalsoom Fatima (KF)

[soft music]

[chanting at student protest]

HH: Assalamulaikum and welcome to our podcast series Khoj. This series is hosted by the Collective for Social Science Research, based in Karachi where we are working on a wide range of issues from gender to social protection, economics and policy analysis to name just a few. Through our podcast we will share with you some of the fascinating findings of our deep dives into the issues and communities we study.

My name is Haleema Hasan, I graduated in 2019 and I have been working here as a research assistant for almost a year and a half. I work with Dr Asad Sayeed on economics, gender issues, politics and labor wages along with other issues. Asiya Jawed is also here with me today who works with me at the Collective. Hello, Asiya!

AJ: Hello, Haleema and Assalam u alaikum everyone. I work with Ayesha Khan on gender, politics and civic space at the Collective for Social Science Research. In today’s episode we will discuss the problems that Pakistani students faced amidst the Covid-19 pandemic. This research is part of the Action for Empowerment and Accountability (A4EA) programme which is based in the Institute of Development Studies (IDS) in the UK. Through A4EA we were part of a project called “Navigating Civic Spaces in the Time of Covid-19” or NCS. This was a six month long study from June to December 2020 where we worked with Nigeria and Mozambique to understand how each country’s civic space evolved. We used media tracking, interviews and observatory panels to understand how the civic space transformed during the pandemic.

From school-going students to university students, we continuously followed the problems faced by Pakistani students. Then we wrote a blog and made a specific timeline on this important research. These resources are available on our website - please go over them or disseminate them amongst your peers if you like.

HH: We had a basic framework to write this blog because last year only we initiated a Covid-19 blog series where we identified eight vulnerable groups from Human Rights Commission of Pakistan’s report, “Covid-19-Citizens-Government”. We wrote a few blogs on the impact of Covid-19 on these vulnerable groups in society.

We initiated our student blog by thinking and writing about the digital divide in the country because this was the most discussed topic relating to students in the media -- especially with regards to online learning access. So Asiya, what did you understand about class-based issues while conducting NCS media tracking?

AJ: Digital divide is a big problem - students and teachers belong to different classes due to which several individuals don’t have access to the internet or digital devices. But as we researched more about education related problems, we understood that these problems are far greater than digital divide. To understand specific problems faced by students, we interviewed student leader Rai Ali. Rai is currently doing his Masters from Punjab University and he is the General Secretary of the Central Cabinet of Progressive Students’ Collective (PSC). He told us that,

“One of the biggest problems that we witnessed was that in FATA, Kashmir, Gilgit-Baltistan and rural areas of Sindh there was no internet. So all of those students were at home and the biggest issue that they were facing was that there was no internet. And as everyone left Lahore, Karachi and Islamabad and went back to their homes thinking that they would return in a week or two weeks time but that didn't happen. They also kicked a lot of students out of the hostels so they couldn't take their books along with them and some even had to leave their laptops behind.”

When I was conducting my research for the NCS project, a professor at University of Sindh told me that students feel shy while taking online classes because the situation in their houses was so bad. When these professors saw students’ houses through online classes, they understood that students belong to different classes in society but this difference isn’t evident in schools because everyone looks similar there. Some students were taking their classes under a tree or were sitting on the stairs in their houses because they didn’t have a separate space to attend classes inside their houses.

HH: Exactly… These are the realities of our country. On the other hand, there was a lot of buzz going around regarding exam cancellations of school-going students. What did you find out when you followed this issue?

AJ: When I followed this issue, I understood that our state has a class-based response because the demands of students from lower socio-economic backgrounds don’t reach the government -- and even if they do, the state works very slowly to fulfill their demands.

For example, students who were giving their Medical and Dental College Admission Test (MDCAT) last year had certain demands which were completely ignored by the state as Education Minister Shafqat Mehmood stated that the Ministry of Health will solve the problems of students giving their MDCAT because they are medical students… And even after consistent protests, they had to appear for their exams in December 2020.

However, when problems arose for students from Cambridge Assessed International Examination (CAIE), who are mostly part of the upper middle class, the government listened and understood their demands after facing consistent pressure. This could also be the case because British Council and private schools also consistently support students appearing for their CAIEs. But it is our government’s responsibility to understand the demands of our students and find adequate solutions. It is imperative for our government to bring a change in our education system. Our government lacks a proper system to address the problems of all kinds of students. Therefore, Covid-19’s impact on students from a lower class is much greater.

HH: No, exactly. Class plays an important role in the impact of Covid-19 on individuals. I remember when we were writing our blog, we consistently found issues related to class. Another thing which became more apparent during our research was the role of ethnicity and locality which amplifies the impact of Covid-19. Some important statistics and facts in relation to this are also mentioned in our blog.

The digital divide that we talk about has many further divisions too - for example, urban-rural division, and then inter and intra provincial differences. By these differences we mean that… for example the biggest difference between an urban and a rural area was internet access. Last year when the government announced that the schools should move to online classes, several students came to the streets [to protest] because they either didn’t have proper internet facilities or even if they did, it was in a really poor condition. In Balochistan and other conflict-ridden areas this problem is much worse because in several of these areas the government has barred internet services due to security reasons. Specific groups like the Hazaras face greater problems - even in normal circumstances, it is difficult for them to acquire education because of their ethnicity, locality and the overall security situation in the area. We can’t even imagine how these adversities might have amplified amidst the pandemic. There were snippets of good news as well which we also discussed in the blog like Zong Pakistan’s contract with Universal Service Fund through which they aimed to provide internet services in Balochistan’s rural areas.

AJ: Yes, such news did increase our hopes but the policies that came through the government didn’t have proper planning or execution strategies. Our authorities mostly responded to students’ demands through violence. However, it was remarkable that even after all of this our students not only worked towards their education but also fought for their rights constantly.

HH: I know right. I think about how if we were graduating right now, during all of this, it would have been so difficult. There are so many things that are left behind because of the pandemic, no?

AJ: Yes, exactly. This is a big loss for students. Not only because of their studies, but also socially too. Every student has some sort of expectations from their school, college or university. I can’t even imagine what these students would have felt while taking these online classes, giving their exams and graduating in such a situation.

HH: Yes, there is a huge emotional loss. Several dreams, expectations, plans etc that the students couldn’t achieve. For example when I was in school, farewells were quite an anticipated event where [female] students were especially excited to wear saris, dresses etc. Similarly, while in university, attending classes, seminars and other events was a completely different experience. Final year students or seniors have separate events planned out like color days when all students wear clothes of the same color. Our experience in schools and colleges is very communal and the online learning system cannot really replicate that. These losses have an emotional and mental impact which all students feel. And then there are also issues related to class, ethnicity and locality.

AJ: Yes, Haleema. This is a difficult time for students all around the country but several students have used online sessions, games or memes to cope during this difficult period. Haleema, you told me about this Facebook page “zoom memes for self quaranteens” where students from all over the world were sharing their pandemic and online learning experiences which can prove to be very cathartic for them. Umm, so it was difficult for students to stay in a few online spaces like online classes… But during this pandemic students used the internet in important and innovative ways…

HH: Undoubtedly, online spaces have prove to be very important during Covid-19. When I last checked the zoom memes group there were 882.3K members who were a part of this group which is almost 9 lac members. Like you said, Pakistani students used the online space in very specific ways for important things -- especially our female students.

AJ: Exactly. Female students used these online spaces in many different ways to amplify their voice and put forward their demands. There is a female student activist, Kalsoom Fatima who’s studying Sociology at Punjab University right now. Due to Covid-19, she isn’t present with us in the studio today but we will call her and try to understand female students’ problems amidst the pandemic and what protests were female students involved in while facing these issues.

[phone rings]

AJ: Assalam u alaikum Kalsoom.

KF: Walaikum assalam.

AJ: Uh, Asiya here and Haleema is also with me in the studio right now. How are you, Kalsoom?

KF: Alhamdulila, I’m fine. How are you?

AJ: I’m doing well. So firstly, please tell me what problems did female students face during the pandemic and how did they protest?

KF: Okay… so if I talk about female students’ issues… Asiya, you’re also aware that these things [students’ displaced during Covid] happened very suddenly. Everything moved to the digital system, the whole education system... so there were a lot of space issues. It was difficult for students to negotiate space at home and continue with online education because on average, we know that in middle class families there are about 6 -7 individuals. So it was tough to provide laptops, gadgets or separate rooms to each child. Then, if we talk about marginalized areas like Balochistan, FATA, Gilgit Baltistan, Southern Punjab and Waziristan so we observed that female students really have to work hard to be enrolled in colleges and universities. So when female students went there [back to their homes] everything became very difficult for them because there was no internet access in these areas.

I know a female student personally who belongs to Jaffarabad… she had to walk 7-8 kilometres everyday just to continue her studies. On top of that, the university management behaved very coldly. They were forcing students to join classes even though they didn’t have internet access. Students had to travel long miles, some climbed mountains, some walked 7-8 kilometres to go into another area just to have stable internet connection. The impact of all of this on female students was that their parents started saying that if they have to work so hard on their education, for example arranging a separate gadget like a good laptop or mobile phone for them which has space to download Zoom and other applications so they started moving towards forced marriage. Family members asked female students to leave everything else and learn household work because they wanted them to get married. And many girls who wanted to continue their education have gotten married during this lockdown period due to lack of family’s resources.

AJ: Exactly, exactly.

HH: Yes, Kalsoom, These are very distressing times and women and female students are facing their own struggles. Through our research we found out that Covid-19’s impact on female students is far greater because our spaces and responses are very male-centric and this impacts female students adversely. While we were doing media tracking for the NCS project we understood that during the lockdown female students raised their voice against sexual harassment. Can you tell me how female students protested against sexual harassment in online as well as offline spaces and what were the outcomes of these protests?

KF: Yes, exactly. The digital space became broader and the physical distance minimized and it moved towards digital closeness. It became very easy for a teacher - teachers who were culprits in our society who were involved in harassment before as well, got an opportunity because they thought that female students can’t really do anything about this and they can do whatever they want. That’s why several teachers started harassing students online. Then, female students experienced the MeToo Movement in private schools and how female students began raising and amplifying their voices. The biggest impact of this was that when female students started conversing they began understanding these problems. Female students who didn’t have adequate information regarding this because generally in Pakistani society, we don’t talk or educate people about sexual harassment here. People don’t talk about it in their houses - parents don’t discuss sexual harassment with their children. So when these female students understand the unwanted touching or unwanted staring is sexual harassment, they realize that they have also gone through the same problem and so the start posting about it as well. They started talking about this issue.

Due to these issues, we have been doing a Student Solidarity March since 2019 where we have a clear demand that educational institutions need to work on student harassment committees because students themselves are stakeholders in these institutions and if we don’t talk about students’ problems or if we don’t include students’ when we are trying to solve their problems then there will be no proper solution to these problems.

AJ: Exactly, exactly. These are grave situations and it's a pity that these problems still persist and continue -- there is no end in sight. In such a situation, what can students do themselves and how can they seek help from systems in the state? Do you have any examples regarding this?

KF: The way of the law is very clear here. Other than that, as a member of PSC I would like to share that we have our own legal time that guides us on how to take such issues further. And then if nothing happens, or if we aren’t being heard then the only option we have is to protest which has happened both online and offline amidst the pandemic because the government had a very non-serious attitude especially in regards with education.

HH: Thank you so much Kalsoom. So Asiya, we were talking about this a few days ago only that it hasn’t been long since the both of us graduated and the inception of the MeToo movement happened in 2018 only when we were still studying in our universities. Compared to today, there are some things that are similar to that time and there are some things that are quite different, no?

AJ: Definitely, Haleema. That space to protest was so different where your friends and other classmates would be present in the same physical space to support each other.

[student protest chants]

AJ: Online protests have several advantages like amplifying your voice on important things but this can also be very emotionally taxing. It was imperative to have the MeToo movement in a physical space because all friends and classmates would stand in solidarity with each other. Haleema, you have studies from LUMS so compared to the MeToo movement over there did you experience the movement in 2020?

HH: Physical and online space was definitely different -- for example, when we got to know about a problematic [online] group in LUMS which had hatred and violence filled posts relating to female students and 600 male students from LUMSwere a part of this group so the situation inside the campus became really weird - we felt very unsafe. Last year when we had the online Me Too movement and LUMS online movement also happened so the situation still felt unsafe but there were some more elements like the solidarity you talked about during the Me Too movement was present but it had also transformed in many ways because everyone was inside their houses in lockdown. However, it is definitely true that students used the online space in every way through all women’s groups and through WhatsApp and Facebook etc and it was really brave of them to use that space. So in this way the online space gave a huge reach to students, made them more aware and gave a chance to victims to talk about their realities and feelings. But this became very overwhelming as well especially when harassers were present in the same online class as the victims and one can’t really separate themselves like they would have done in a physical space so all of this can be very triggering. On top of that, support and grieving mechanisms were present but because of the pandemic they became very restricted.

AJ: Yes, Haleema definitely. And like Kalsoom just said, during the pandemic the physical distance protects the perpetrators because of which their impunity increases. But protesting in a physical space has its own problems. In 2020, when Karakoram International University’s (KIU) students protested against harassment, their male students were arrested and female students were threatened. The individual who was harassing the students was working in the scholarship office [at the university] because of which he was easily blackmailing female students. This tell us that sexual harassment problems are present in present in every class in a grave manner but intersections play a big role in Pakistani students’ problems where there different social identities like gender, class, ethnicity etc amplify the impact of a crisis like Covid-19.

HH: Definitely, Asiya. For example during Covid-19 when Lahore Grammar School’s (LGS) female students shared the hurtful incidents of sexual harassment with the world, so after several heated up discussions, there was some action that was taken on these problems and some teachers who were guilty of these actions were eventually expelled. However, in KIU’s case where the situation was quite similar, the response was quite different. This is not only because of their class but their locality too where in bigger cities such serious problems are still given some attention but far-flung areas aren’t given that much attention either. Last year we experienced more of such issues where locality and class had an intersection. For example, students in Sindh and Balochistan have to travel for hours to use the internet services as Kalsoom just told us right now.

Similarly, Baloch students’ carried out a long march because scholarships and reserved seats were suspended because of which it was difficult for them to get an education in other provinces while they didn’t have good education facilities in their own province.

AJ: Yes, all of these problems are quite intersectional and several students are stuck in these issues because of their social identities. I remember that when I spoke to Rai about students’ demands, I got to know that their biggest demand right now is to retrieve student unions. Student unions were banned 36 years ago during Zia’s era and students don’t have a formal platform to address their demands and grievances.

RA: Our basic demand is that some institutions need to be set up like the student unions which is a basic right of Pakistani students. In our campus, gardeners have a union, workers have a union, guards have a union but only students don’t have a union. Students make up 95% of any educational institute but they aren't given a platform to put forward their demands.

AJ: Another important demand that I understood after talking about student unions was of sexual harassment committees in educational institutes. These committees mostly have male professors and it becomes very intimidating for female students to complain and address their demands in front of the male professors. It is imperative that female student representatives become a part of these committees and every member of the committee is given gender sensitivity training so they can handle such critical issues with ease.

HH: Yes, Asiya. This is a very important system which hasn’t been established in our country yet and Covid-19 has brought these issues to the surface.

AJ: Our entire education system was shaken due to the pandemic and we realized that it is crucial for our government and educational institutions to work in tandem so they can create a good online system which can reach students all over Pakistan. Experts in Pakistan have proposed a few solutions to these problems like investment in ed-tech and public private partnerships. This is not the first or the last pandemic and as time changes we will also have to adapt to new technologies and make these more accessible. Right now, students' biggest demand is to retrieve student unions so they can put forward all their complaints on a single platform.

HH: We hope that this podcast was informative for you. If you want to know more regarding this issue please have a look at our blog, “2020 in Review: Pakistani Students and the Pandemic” and our media tracking timeline on our website www.researchcollective.org.

[slow music]

AJ: We have made this podcast in collaboration with Films d’art. I would also like to thank SoundsGreat Studios where we recorded this podcast. And I especially want to thank Kalsoom Fatima and Rai Ali who gave us these interviews. We hope that you enjoyed the third episode of our podcast series Khoj. Do tune in for the next episode. Until then, good bye.

[student protest chants]

Card image cap

Episode 2: How does the State plan to protect its poor?

Date:13-04-2021

Description: What does social protection mean? Do we have any effective policies to help the most vulnerable? What do these policies look like in Pakistan’s fragile economic landscape further impacted by Covid?

Transcript KHOJ Episode 2 transcript

Ayesha Khan (AK), Asad Sayeed (AS), Haris Gazdar (HG)

[Slow music]

AK: Good afternoon, and welcome to the podcast series Khoj. This series is hosted by the Collective for Social Science Research. We are a development research organisation based in Karachi, working on a wide range of issues, from gender to social protection, economics, and policy analysis to name just a few. Through our podcast, we will share with you some of the fascinating findings of our deep dives into the issues and communities we study. This work is part of a programme called Action for Empowerment and Accountability, a multi country research initiative hosted by the Institute of Development Studies in the UK. My name is Ayesha Khan, and I have been working for many years on gender and development issues here at the Collective.

AS: The unfortunate thing over the last few years has been that there is really no debate on social protection in Pakistan, and how do we move forward? Or what should be its parameters?

HG: So government had the responsibility, it had the opportunity, it had the resources… to actually do something much better. And that wasn't done. And I think that I feel very sorry for our country that we missed that opportunity.

AK: For today's episode, I have invited two of my colleagues, Asad Sayeed, and Haris Gazdar, who are economists and senior researchers with me at the Collective. Amongst other topics, both of them are experts on social protection issues in Pakistan. Over the years, Asad was involved in assessing social protection in the formal sector. He has also assessed child protection activities, and citizenship vulnerabilities, while strategizing ways to reconstruct the lives of those impacted by the 2010 Indus floods. And Haris has conducted several evaluations of the Benazir Income Support Programme with a focus on its cash transfer schemes. Today, we will talk about what social protection looks like in the country's fragile economic landscape, and what effect the pandemic has had on existing programmes.

Welcome, Asad and Haris. Thanks for taking the time out to record this important conversation. Why don't I start by asking you Haris What was the government's social protection response during our first lockdown over a year ago? Did it work?

HG: Thank you Ayesha. It's a very important question. But before answering that, I'd like to say a context, before we get to how things panned out with respect to the pandemic. So social protection, it's a commitment. It's also a resource transfer. And it's basically a way in which a government ensures that none of its citizens fall below a certain threshold in terms of consumption, or income, or well-being.

But it really mostly refers to assistance to people in the economic or material realm. So of course you have a broad range of social policies, in education, in health, and in other areas, and some of them are connected with social protection but social protection really is about helping people who fall below a certain level with respect to their income. Now, in market economies, social protection plays a very critical role because in these economies, when we expect that people consume, or they eat, or they earn, what they do through their work, or if they have assets. So any shortfalls in the economic system, any shortfalls in terms of their assets, in terms of their wages, where will they be met from?

Now, you know, in the old days, people thought of charity. But that's neither a commitment by government, nor is it based on any notion of rights. And finally, it is not something which is a guarantee from anybody to anybody. So Pakistan, started its first steps towards establishing a comprehensive social protection system around 2008 with the establishment of the Benazir Income Support Programme, and I would stress that it was a start. So it was an important programme. It was an important change in Pakistan in several ways. Firstly, it was a programme that was a very large programme. Second, it was a programme that wasn't based on cherry picking beneficiaries. What do I mean by that? Before this programme, whenever the government felt the need to assist people who are in any kind of difficulty, it would assemble administrative officials, sometimes political officials, and ask them to identify people whom the government could support.

The Benazir Income Support Programme changed that, it adopted a modern method for approaching who the beneficiaries will be, beneficiary selection. And it was based on identifying all Pakistani citizens as the potential universe for the programme. So it starts from a well defined definition of a universe. And from there it has different it can have different policies with respect to who the eligible beneficiaries would be. So, so that was a success. So it was a mass programme, it was designed on sound principles, its primary beneficiaries were women. And also, it constructed a number of important partnerships between government and other organisations around the technological means for transferring money in a transparent way.

When this crisis hit, it had actually quite remarkable demands upon us. Because several things were happening at the same time, the first thing that we experienced was a lockdown of the economy, which means that and something that was very conspicuous in the discussions at that time, was what would be the fate of people who relied on daily wages? Because if you shut the economy down, they don't have salaries to rely on, they may not have savings, they probably don't have savings. And they're in any case, living very precarious lives - hand to mouth -- particularly in the urban areas, because the lockdown was most strictly enforced in urban areas.

So what would happen to the urban poor, particularly those who relied on wages, daily wages, as well as large number of people who rely on charity, but again, who live in a very precarious way on a day to day basis. So that's really where the social protection response was required. It was… the social protection is always around a particular kind of need. So the response has to be tailored to the condition that you're going to face. And then, for a long time, the not much could be done.

And when the response finally came, it was a big response in terms of budgetary resources, it was actually quite a big budgetary outlay… I think up to a billion rupees in the end, but much of it was really around the initial list of beneficiaries that were identified under the Benazir Income Support Programme, through its survey of 2010-11. So we used the database, which was about 10 years old, which was focused on chronic poverty, the vast majority of whose beneficiaries were in rural areas, and a system that had really no way of identifying daily wage labourers or casual labourers who were going to be the most affected.

AK: So if I understand you correctly, Haris, you're saying that the initial beneficiaries were Benazir Income Support Programme on their lists, but actually the needy at the time when COVID hit, were people living in the urban areas. So Asad, do you think that that's what happened? And also, I just want to ask, whether related to that, weren't there lots of charity efforts in the urban areas like for example, Saylani Welfare Trust, giving out food to the urban poor? And was that not enough?

AS: Well, initially, as Haris said, that, that the distribution that was done was based on the existing lists for BISP, and the amount was enhanced. And the bulk of the beneficiaries were in the rural areas. And just to recall, it was exactly this time last year. And this is a time when the wheat harvest happens. So there was first of all, very little evidence of COVID because at that time, COVID was in Pakistan, largely imported from outside the country.

So it was very much an urban phenomenon but the bulk of the beneficiaries were in the rural areas. The lockdown in Pakistan for good or for bad did not last for too long. But the cities went through the lockdown, and it was a fairly comprehensive one in the large cities, at least in Karachi, Lahore, etc. It was fairly comprehensive. So, so the need for social protection was clearly in the urban areas.

Now, a smart and doable response would have been to do a cash transfer and do a cash transfer based on geographical targeting. We by and large know where the poor live, and they live in those distinct localities and areas. And we have the information through the national database once we identify those localities.

So cash transfer would have been the optimal response. That was not done, because we were doing it on a list which was 10 years old, and which was actually made for a different purpose. It wasn't there for a contingency such as a pandemic. Food was distributed, yes. But it was done in a haphazard manner. One locality at one point to one point in time and other locality at some other point in time, there was there was a lot of duplication of effort that was happening, because the government was supposed to only coordinate it, essentially, and these charity organisations were supposed to deliver.

Now the problem always is that food, first of all, because there's no coordination, that it may reach some, it may not reach others, and it may reach those who actually either have jobs or who have savings or who have assets, and not others. So there was an issue of targeting, there was an issue of duplication.

And the situation was such that your supply chains of food were all working at that point. So markets are full of essentials, food essential especially. And the cash programme could have been done. It could have been rolled out in a couple of weeks. But that was not done.

AK: So this is a bit confusing, because on the on the one hand, we heard that, you know, Ehsaas programme was so big, and it was meeting the needs of people affected by the COVID lockdown. Then on the other hand, you're telling me now that there were so many it was mis targeted because it reached rural beneficiaries when actually urban beneficiaries needed. And then to add another layer of confusion on to what we heard recently, a few months ago almost 200,000 beneficiaries of the BISP were actually ineligible. So what's going on?

HG: Firstly, there are several questions embedded in that one question. So, let me try to unpick that. So, the BSP was and is the flagship programme, it has legal protection. It has a system. So as I explained its database exists, it is premised on a data, it was collected door to door. So although it is dated, and also, although it was intended to capture chronic… the chronic poor. So there are limitations to that data to those data. Nevertheless, that's what the BISP is.

Now, about 90 to 95% of the beneficiaries of Ehsaas are from the BISP list. So let's be perfectly clear about that. So Ehsaas is not a new programme. It's basically another layer of labelling over a programme that already exists. So, whatever happened in the COVID response, and it was called the Ehsaas programme, at its core, as well as its periphery, except for maybe about 10% of additional beneficiaries, all of the other beneficiaries are somewhere in the BISP list. So that's, that's who they are.

Now, what happened to be BISP beneficiaries prior to the COVID crisis? What was the policy of the government as it was developing Ehsaas, with respect to be BISP beneficiaries and so on? Yes, certainly... There was a stage when a very large number of beneficiaries were taken off the list. I think perhaps the number was much bigger than 200,000. I think the number that I had seen at one stage was about 800,000 people nationally.

Now, who were those people? A lot of those were people who were post hoc, identified as being ineligible. What do I mean by that? When the programme first came into play, it had a specific criterion for selecting beneficiaries. Later on, just maybe two years ago, the government decided that actually, it's going to add further criteria, such as ineligibility of people who had government jobs, or those whose family members had government jobs, people who had travelled abroad, or those whose family members have travelled abroad, people who had bank accounts, in certain kinds of banks, or whose family members had those bank accounts, right. So none of these criteria were actually in existence, when the initial list of beneficiaries was established. Of course, the government had the right, it had the legal right.. The board can decide, and the cabinet can decide to change the criteria.

But to say that those people were ineligible and they had become part of the programme is incorrect. Those people were eligible. They met the original eligibility criteria, those criteria were changed. And then a conversation was started that they were fraudulent. So anyway, that was I think, in some ways, an irresponsible conversation because it, you know, asked or in the public mind, it posed questions about the credibility of a programme, which actually had passed many tests of being transparent and being correct and being effective. Of course, there are going to be problems in every programme. But relative to other programmes, the BISP was known to be an effective programme.

So this was the story prior to COVID. Now, what happened when COVID hit was that we were already in the middle of an IMF programme. Now this is very important to understand that we were already undergoing an important economic crisis, a very big economic crisis. We don't have the time to talk about the responsibility for the crisis. Of course, there were governance failures, and there were all kinds of economic failures. There were things happening in the global economy as well. But nevertheless, we were in that situation. And we were in the middle of an IMF programme that had set some very stringent targets with respect to government expenditure, with respect to power tariffs with respect to interest rates, and a lot of those measures had led to a contraction of the economy. So when the pandemic hit with its own demands on the economy with its own burden on the economy, the economy was already reeling under one big shock. Or the people who support the programme would say it was reeling under the medicine that had been administered, because it was in a problem before then.

Now, at that moment when the pandemic hit, and the government understood that, you know, things were going to be very difficult. The Pakistan government, like many other governments, they approached the IMF, they approached their foreign lenders for relief. And Pakistan, then received relief way back. I think the negotiation started in March/April immediately and that relief basically gave us a holiday from the IMF programme. Right. So it wasn't a get out clause, it was it was a like a little break from the programme. And we have now re-entered the programme. But that break was premised on the government doing a number of things with respect to pandemic response. So a lot of government expenditure had to be directed towards social protection, it had to be directed towards health.

Now, I know that there were three important donors who came in with a total of one and a half billion US dollars, the Asian Development Bank, the World Bank, and the Asian Investment Bank. So these three banks with $500 million each came up with a total bill of one and a half billion dollars. And the conditions attached to it were almost all exclusively around giving benefits under the social protection programme.

AS: So, as Haris mentioned earlier it's important to remember that when you have a targeted programme, or even if you have a universal programme, there are certain criteria, which make you eligible for the benefit. So in Pakistan, that was chronic poverty. There could be many other situations where it's these criteria could be different. For instance, if there is a flood, then those who are affected by the floods would be the beneficiaries and not others, or a few live in a coastal area, and there's a tidal wave or a tsunami, then those who are in that area would be the beneficiaries.

And in any social protection programme, or social security programmes anywhere in the world, there are what we call errors that do happen. And these errors happen to be of two sorts. One is that when you include the wrong people, and that would be called an inclusion error. The other is that you exclude the right people. And that would be the exclusion error. So now there was this this notion of excluding existing beneficiaries, on whatever grounds that were mentioned. First of all, as Haris mentioned, though, those grounds did not exist 10 years ago, or those questions were not asked at that point in time. And secondly, that was if anything that was an inclusion error.

But at the same time, over the years, we, the government itself, as well as the press, as well, as research was showing us that there was a very large number of people who were excluded from the programme, for reasons that they did not have, either the national identity card, or that they did not have permanent addresses. And that number was far larger and close to about 2 million people who were excluded. So, there was very little that was done over this period of time to remove the exclusion error, and there was emphasis on inclusion errors, which was also politically motivated as this government is keen on, on demonstrating corruption and corrupt practices of previous governments. So, there was this this large gap that was already there that was not filled. And one reason is that the poverty census that was done in 2010-11, would have become redundant any waiver in a span of say about five years. And it's been over 10 years that the new survey or the new census that was to be done, has not been completed and a new list has not been developed.

AK: So this sounds like maybe a lot of money went into social protection over the last year, but for a programme that maybe was not fit for purpose? I mean, both of you have spent a lot of time in the field understanding the needs of communities, both urban as well as rural across different geographies in Pakistan. So, you know, does this work? Was this programme fit for purpose?

HG: And I would say it in a slightly different way, I would say that the beneficiaries of the Benazir Income Support Programme, who now we are saying that the Ehsaas beneficiaries, as well as the people who are added on later, mean, I have no reason to believe that they are not amongst the poorer people of Pakistan. And if money was transferred to them, I don't really have any complaints about that.

But what I do have a problem with is that we had an opportunity to do something much better that we didn't take. So that opportunity was lost, what was that opportunity, the opportunity was to actually upgrade the programme, make it much more effective, make it much more nimble, much more responsive to the kinds of needs that we would now encounter, I think virtually every year… I think the pandemic was just one of the many, many wake up calls that we've received in Pakistan, just remember, we are in the middle of a climate disaster in this country, you know, we have floods every other year, we have droughts in different parts of the year. And we have all other kinds of disasters, locusts coming, all of these things, you know, they take away the little people do for themselves. And it really throw people you know into the margin. And I think that's really, so government had the responsibility, it had the opportunity, it had the resources… to actually do something much better. And that wasn't done. And I think that I feel very sorry for our country that we missed that opportunity.

AK: So what what's missing from the discussion, then?

AS: I think the, the unfortunate thing over the last few years has been that there is really no debate on social protection in Pakistan, and how do we move forward… Or what should be its parameters? So there's a lot of talk of helping the poor supporting the poor. But there's no there's no debate on what are the basis on which we're going to do it.

So now the global debate in developing countries has been across a number of areas, that should social protection be something which is universal, that all citizens qualify but the uptake would be those who are the poorest. So you remember, we had a ration system in Pakistan, which was adopted, which was actually inherited by the country from the colonial state. And that ration system would provide certain food items at a subsidised rate, and everyone was eligible for it. But for several reasons, a lot of the uptake was amongst those who, for whom it was difficult to afford those, those particular goods at those prices. So it kept their consumption levels intact. And it was mainly it was staples, it was wheat, it was rice, it was oil, sugar, etc. Now that was done away with in Pakistan in the 1970s. India continues with that. In India, they call it the Public Distribution System. And I think they even they want to do away with it now. But there's a debate that should it be universal, should it be targeted.

Targeted is better if you have limited resources, and nowadays, we have the technology to identify people through national databases. So there are a number of areas. So that debate is not happening as to who is it that we should be targeting or who should be the beneficiary population, who are the ones whom the market doesn't fully support us or serve. And as a result, what we have is a lot of ad hoc stuff that goes on.

So you have nowadays the panahgahs have started which are shelter homes for the poor. Now, if you look at the number of beneficiaries of these shelter homes, they'd be like, not even 100th of those who actually do not have adequate housing. Or you have a food or soup kitchens that were advertised recently by the Prime Minister himself, which would, which doesn't even begin to address the issue of food insecurity, and nutritional deficiencies that the country faces.

So, now all of this would come about, through some sort of a rational debate, and the debate as to whom do we wish to protect? And in what order of priority do we want to protect? And then the second element of that is that, how much money are we willing to spend? What is our fiscal window for social protection? And that, again, is part of what national priorities there are in terms of spending? So do we want to spend on defence? Do we want to spend on physical infrastructure? Do we want to spend on climate protection? And do we want to spend on social protection, etc. So, the big problem right now is that there's a lot of populism, there's a lot of bravado… But there's very little actual debate, neither at the political level, nor at the academic level.

AK: So basically, what you're saying, if I understand correctly, is that you can have politicians can have the best intentions to provide food, to provide shelter, to provide cash transfers, but unless it's a very thorough and well thought out policy, mistargeting will happen. And possibly, not all the right people will get the help that they need in time.

AS: Or you may just do ad hoc things as being done, which does not address the underlying issue. I mean, just to take the example of the shelter homes and the food programme, they do not address the underlying issue of inadequate housing, or inadequate shelter for the poor, or of nutritional deficiencies and food insecurity.

AK: But some critics would say that, you know, social protection, isn't it like a band aid in the sense that it's not going to actually address the drivers of poverty is it?

HG: The whole social protection paradigm arose when it became clear that the world was moving towards some kind of a global consensus in favour of a market economy. So people would work, the labour market would either provide jobs, or people would be unemployed, or people would be in the age of being pensioners. So all of the people who would not be actively in the labour market, or whose wages were going to be too low, even within the labour market, were the ones that social protection came in aid of. So that's really where all of the whole discussion for social protection started. And I think that we remain in that paradigm. And hence, we have to continue thinking in terms of social protection as a way to protect people while doing other things to make sure that there is a growth in jobs, there is a growth in incomes, and the economy's lifted up.

So I guess the lessons that we've learned from building the Benazir Income Support Programme, and then the lessons that we've learned over the last one year are really that if you have made the investment, both resource investment and the political investment in creating good systems, you will actually have mechanisms for helping people when you need to help them. But to build systems is actually a laborious task, it is tedious, it requires a lot of effort. And it may or may not give you the political headlines, it has to be done mostly in a quiet way. And ultimately, yes, you know, you will earn some political reward, or you might get some fame. But you know, that's how it is. But that's really the experience of every single country in the world. So, Europe went through it after the Second World War when they build their social welfare system. So we say, social welfare state, but actually they build systems through which these things could be delivered. And so we were on our way to building that system. And then somewhere along the line, we've stopped. And I think that when you're not building systems, you're basically chasing headlines, and you're still finding certain, you know, bits of good news that Asad talked about, that a shelter here and you know, a community kitchen there, and you make a big deal out of it. But actually the task of building the systems, maintaining them and upgrading them, that really is the task for all countries in this time.

AS: And social protection is a very important sort of citizenship sort of empowerment tool, especially in developing countries, and especially in post-colonial countries, where citizens and the state only interact in either a conflictual or an oppressive manner. So the poorest of the citizens’ interaction with the state happens either through law enforcement or through the courts. But here is something where a positive relationship between the citizen and the state can be created. So its benefit, apart from the benefit that accrues to the poorer segments of society is also one of nation building, and of transforming nations into more inclusive societies.

[Slow music]

AK: So lots of serious problems to address and it seems that we never have enough time, nor enough debate to actually come up with the right solutions. But thank you so much Asad and Haris for taking time out for this conversation. I've certainly learned a great deal. And it seems that well targeted and reliable social protection programmes are certainly needed, especially as our citizens recover from the pandemic. With a third wave already upon us it will be interesting to see what the government does now to protect the poor.

This podcast was produced in collaboration with Films d’art. I would also like to thank SoundsGreat studios for the recording facilities. I hope you enjoyed listening to the second episode of our podcast series Khoj, and will tune in again for the next time until then, goodbye.
Translation کھوج قسط دوئم

عائشہ خان، اسد سعید، حارث گزدر

دھیمی موسیقی

عائشہ خان: سلام اور پوڈ کاسٹ سیریز کھوج میں خوش آمدید۔ اس سیریز کی میزبان کلیکٹو فار سوشل سائنس ریسرچ ہے۔ ہم کراچی میں ایک ترقیاتی تحقیقی اِدارہ ہیں، اور کئی ایک امور بشمول صنف اور سماجی تحفظ، معیشت اور پالیسی تجزیہ پر کام کرتے ہیں۔ اپنے پوڈ کاسٹ کے ذریعے ہم اپنے زیر مطالعہ امور اور کمیونٹیز سے متعلق اپنی دلچسپ معروضات آپ کے سامنے پیش کریں گے۔ یہ سرگرمی برطانوی ترقیاتی مطالعات کے انسٹی ٹیوٹ کے تحت ایک کثیر القومی تحقیقی پیش رفت بعنوان بااختیاری اور احتساب کے لیے عمل کا ایک حصہ ہے۔ میرا نام عائشہ خان ہے اور میں گزشتہ کئی برسوں سے کلیکٹو میں صنفی اور ترقیاتی امور پر کام کر رہی ہوں۔

اسد سعید: گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ایک افسوس ناک امر یہ رہا ہے کہ پاکستان میں سماجی تحفظ اور اس پر ممکنہ پیش رفت اور اس کے پیمانے کیا ہوں پر مباحث نہ ہونے کے برابر رہے ہیں۔

حارث گزدر: حکومت کی ذمہ داری تھی، اس کے پاس موقعہ تھا، اس کے پاس وسائل تھے۔۔۔ کہ حقیقی معنوں میں کچھ بہتر کیا جاتا۔ تاہم یہ نہیں کیا گیا۔ اور میرے خیال میں یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک نے موقعہ گنوادیا۔

عائشہ خان: آج کی نشست کے لیے میں نے اپنے دو ساتھیوں اسد سعید اور حارث گزدر کو مدعو کیا ہے جو ماہر اقتصادیات ہونے کے ساتھ میرے ہمراہ کلیکٹو میں سینئر محققین بھی ہیں۔ دیگر امور کے علاوہ، وہ دونوں پاکستان میں سماجی تحفظ کے امور کے ماہرین بھی ہیں۔ اسد سعید کئی برسوں سے رسمی شعبے میں سماجی تحفظ کا جائزہ لینے میں مصروف رہے ہیں۔ وہ 2010 کے دوران دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں متاثرہ افراد کی ازسرنو بحالی کے طریقہ کار کی حکمت عملی کے تعین کے دوران بچوں کے تحفظ کی سرگرمیوں اور شہریت کو لاحق خطرات کا جائزہ بھی لیتے رہے ہیں۔ جبکہ حارث گزدر نقد رقومات کی منتقلی کے منصوبہ جات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کئی ایک جائزوں میں شریک رہے ہیں۔ آج ہم ملک کے بظاہر نازک اقتصادی شعبے میں سماجی تحفظ کی صورتحال اور جاری پروگراموں پر عالمی وبا کے اثرات کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔

خوش آمدید، اسد اور حارث! اس اہم گفتگو کے لیے وقت نکالنے کے لیے شکریہ۔ حارث! آپ سے دریافت کرتے ہوئے آغاز کرنا چاہوں گی کہ ایک سال قبل پہلے لاک ڈاؤن کے دوران حکومت کا سماجی تحفظ کے سلسلے میں کیا رویہ تھا؟ اور کیا یہ نتیجہ خیز رہا؟

حارث گزدر: شکریہ عائشہ خان۔ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے۔ تاہم اس کا جواب دینے سے قبل، میں عالمی وبا کے ضمن میں ہماری پیش رفت پر بات کرنے سے پہلے ایک تناظر کی بات کروں گا کہ سماجی تحفظ ایک عزم ہے۔ یہ وسائل کی منتقلی بھی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے تحت حکومت یقین دھانی کرتی ہے کہ اس کا کوئی بھی شہری کھپت، یا آمدنی یا فلاح و بہبود کے ضمن میں ایک مخصوص حد سے نیچے نہ جائے۔

تاہم یہ زیادہ تر لوگوں کے اقتصادی اور مادی ضروریات سے متعلق ہے۔ اس لیے تعلیم، صحت اور دیگر شعبہ جات میں سماجی پالیسیوں کا ایک وسیع تنوع آپ کے پیش نظر ہوتا ہے جن میں سے کچھ سماجی تحفظ کے ساتھ منسلک ہیں تاہم سماجی تحفظ درحقیقت لوگوں کی مدد کرنا ہے جو کہ اپنی آمدنی کے ضمن میں ایک مخصوص سطح سے نیچے آگئے ہوں۔ اب، منڈی کی معیشت میں، سماجی تحفظ ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ ان معیشتوں میں جب ہم توقع رکھتے ہیں کہ لوگ کھپت کریں، یا کھائیں پئیں، یا وہ کمائیں، تو وہ اپنے کام کاج کیا حاصل کرتے ہیں، یا آیا ان کے پاس کچھ اثاثے ہیں۔ چناچہ اقتصادی نظام میں کسی کمی ںیشی، ان کے اثاثوں یا ان کی آمدنی میں کسی تخفیف کے حوالے سے، ازالہ کس طرح کریں گے؟

جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ پرانے دور میں لوگ خیرات کا سوچتے تھے، تاہم یہ نہ تو کسی حکومتی عزم کا اظہار ہے اور نہ ہی حقوق کے کسی پیرائے سے متعلق ہے۔ اور آخر الذکر، یہ ایسا بھی کچھ نہیں جس کا کسی نے کسی کے ساتھ کوئی وعدہ کیا ہو۔ سو پاکستان نے 2008 میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے قیام سے ایک جامع سماجی تحفظ کے نظام کی جانب ابتدائی قدم اٹھائے، میں زور دوں گا کہ یہ ایک ابتدا تھی۔ اس طرح یہ ایک اہم پروگرام تھا۔ یہ پاکستان میں کئی حوالوں سے ایک اہم تبدیلی تھی۔ دوئم یہ کہ پروگرام غیر رسمی طور پر مستفیض ہونے والے (cherry picking beneficiaries) پر مبنی نہیں تھا۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ اس پروگرام سے قبل، حکومت کو جب بھی کسی مشکل کے شکار افراد کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی تو وہ انتظامی اہلکاروں، جبکہ کبھی کبھار سیاسی عمائدین کو جمع کرکے انہیں ایسے افراد کی نشاندھی کرنے کو کہتی جنہیں حکومت مدد کرے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نے یہ تبدیل کر دیا، اس نے مستفیض ہونے والوں کا انتخاب کرنے کے لیے ایک جدید طریقہ کار اختیار کیا۔ اور یہ تمام تر پاکستانی شہریوں کے امکانی طور پر قابل مستفیض ہونے کی نشاندھی کی آفاقیت پر مبنی تھا۔ اس طرح یہ آفاقیت کی ایک قابل ذکر تشریح سے شروع ہوا۔ اور یہی اس کی انفرادیت ہے کہ پالیسی کے تحت اس سے کون امکانی طور پر مستفیض ہو سکتا ہے۔ اس طرح یہ ایک کامیابی تھی۔ یہ ایک عوامی سطح کا پروگرام تھا، جو کہ مضبوط اصولوں پر استوار کیا گیا تھا اور اس سے مستفید ہونے والی بنیادی طور پر خواتین تھیں۔ جبکہ اس نے ایک شفاف انداز میں رقومات کی منتقلی کے لیے تیکنیکی ذرائع کے گرد حکومت اور دیگر اداروں کے درمیان کئی ایک اہم شراکت داریاں قائم کیں۔

جب بحران سامنے آیا تو اس نے کئی ایک امور پر ہم سے استفسار کیا۔ چونکہ ایک ہی وقت میں کئی چیزیں ہو رہی تھیں، پہلی چیز جو ہمارے تجربے میں آئی وہ معیشت کا لاک ڈاؤن تھی، جس کا مطلب یہ ہے اور جو کہ اس وقت کے مباحث میں شد و مد کے ساتھ تھی کہ روزانہ اجرت پر انحصار کرنے والوں کا کیا ہوگا؟ کیونکہ اگر آپ معیشت کو منجمند کردیتے ہیں تو ان کا کیا ہوگا جن کو مختص تنخواہیں نہیں ملتیں اور جن کے پاس بچت بھی نہیں ہوتی۔ اور وہ بوجہ بالخصوص شہری علاقوں میں،کیونکہ لاک ڈاؤن زیادہ سختی کے ساتھ وہیں نافذ ہوا، کما کر کھانے کی گمبھیر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

سو شہری غریب، بالخصوص جو روزانہ اجرت پر انحصار کرتے ہیں، اور ان لوگوں کی بڑی تعداد جو خیرات پر انحصار کرتی ہے، جو روزانہ کی بنیاد پر انتہائی پیچیدہ زندگی گزارتے ہیں۔ درحقیقت یہ تھا وہ عنصر جہاں حقیقتاً سماجی تحفظ کی ضرورت تھی۔ کیونکہ سماجی تحفظ ہمیشہ کسی مخصوص نوعیت کی ضرورت کے گرد ہوتا ہے، اس لیے مداخلت کو ان حالات کے مطابق ہونا چاہیے جو کہ آپ کو درپیش آنے والے ہوں۔ تاہم ایک طویل مدت تک اس ضمن میں زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکا۔

جب بالآخر مداخلت کی گئی، یہ بجٹ کے وسائل کے لحاظ سے ایک بہت بڑی مداخلت تھی، یہ درحقیقت ایک انتہائی بڑا بجٹ خاکہ تھا۔۔۔ میرا خیال ہے کہ حتمی طور پر ایک ارب روپوں تک، تاہم ابتدائی طور پر اندراج کیے گئے مستفیض ہونے والے 2010-11 کے سروے کے ذریعے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے نشاندھی ہونے والے افراد تھے۔ اس طرح ہم نے وہ اعداد و شمار استعمال کیے جو تقریباً دس برس پرانے تھے، جس سے مستفید ہونے والوں کی ایک بہت بڑی اکثریت دیہی علاقوں میں رہائش پذیر تھی، ایک ایسا نظام جو کسی صورت روزانہ اجرت کے حامل مزدوروں یا غیر رسمی مزدوروں کی نشاندھی سے قاصر تھا جو سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تھے۔

عائشہ خان: حارث! اگر میں آپ کو درست طور پر سمجھ پائی ہوں تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ابتدائی طور پر مستفیض ہونے والے افراد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فہرست سے تھے جبکہ کووڈ کی وبا کے وقت اصل مستحقین شہری علاقوں میں رہنے والے لوگ تھے۔ اسد! کیا آپ کے خیال میں یہی کچھ ہوا؟ اور یہ بھی معلوم کرنا چاہوں گی کہ کیا سیلانی ٹرسٹ جیسے کئی ایک خیراتی ادارے شہری مفلس افراد کو کھانے کی فراہمی جیسے کاموں میں بھی تو مصروف تھے، کیا یہ کافی نہیں تھا؟

اسد سعید: ابتدائی طور پر، جیسا کہ حارث نے بتایا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی موجود فہرستوں کی بنیاد پر امداد فراہم کی گئی، اور اس میں بعد ازاں اضافہ بھی کیا گیا۔ مستفیض ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی تھی۔ یہ یاد دہانی کی جائے کہ یہ گزشتہ برس ٹھیک انہی دنوں کی بات ہے۔ اور یہ گندم کی کٹائی کے دن ہوتے ہیں۔ ویسے ان دنوں کرونا کے انتہائی کم شواہد میسر تھے کیونکہ یہ زیادہ تر بیرون ملک سے یہاں آنے والی بیماری تھی۔

سو یہ بڑے پیمانے پر شہری معاملہ تھا لیکن مستفیض ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی تھی۔ پاکستان میں لاک ڈاؤن بوجہ زیادہ عرصے تک نہیں چلا۔ تاہم شہروں میں بہر صورت لاک ڈاؤن ہوا ضرور اور کم از کم کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں سختی کے ساتھ نافذ ہوا۔ چونکہ یہ سنجیدگی سے نافذ ہوا چنانچہ سماجی تحفظ کی واضح ضرورت شہروں میں ہی تھی۔

اب، ایک مناسب اور قابلِ عمل مداخلت نقد رقومات کی منتقلی اور وہ بھی جغرافیائی بنیادوں پر اہداف کے طور پر ہوتی۔ ہمیں مجموعی طور پر علم ہے کہ غریب آبادی کہاں بستی ہے، اور وہ کن علاقوں یا اضلاع میں رہتے ہیں۔ اور ان آبادیوں کی نشاندھی کے بعد ہمارے پاس قومی اعدادوشمار کے ذریعے معلومات موجود تھی۔

سو، نقد رقومات کی منتقلی زیادہ بہتر متبادل ہوتا۔ تاہم اس کو اختیار نہیں کیا گیا کیونکہ ہم نے دس سال پرانی فہرستوں پر انحصار کیا جو کہ کسی اور مقصد کے لیے تیار کی گئی تھیں۔ عالمی وبا جیسی عفریت سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی ہنگامی تیاری تھی ہی نہیں۔ جی، خوراک تقسیم کی گئی، تاہم یہ غیر منظم انداز میں تقسیم ہوئی۔ مختلف علاقوں میں مختلف اوقات میں، علاوہ ازیں کچھ مقامات پر کثیر الفریقین مداخلتیں تھیں، کیونکہ حکومت سے عمومی طور پر ان سرگرمیوں کی تنظیم متوقع تھی جبکہ ان خیراتی اداروں سے عملاً کام کی توقع کی گئی تھی۔

ہمیشہ درپیش آنے والا مسئلہ یہ ہے کہ خوراک کچھ لوگوں تک پہنچی اور کچھ تک نہیں پہنچی اور چونکہ کسی قسم کا انتظام میسر نہیں تھا چنانچہ یہ شاید ایسے افراد تک بھی پہنچی جو شاید باروزگار ہوں یا پھر ان کے پاس کچھ اثاثے موجود ہوں جبکہ اس کے حقیقی مستحقین اس سے محروم رہے۔

صورتحال یہ تھی کہ اس وقت آپ کے خوراک کی فراہمی کا نظام تاحال کام کر رہا تھا، جس کی وجہ سے مارکیٹیں اشیاء خوردونوش سے بھری ہوئی تھیں۔ اس لیے نقد رقومات کی منتقلی کے پروگرام پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے تھا جو کہ نہیں کیا گیا۔

عائشہ خان: یہ تو انتہائی الجھاؤ والی بات ہے، کیونکہ ایک جانب تو ہم نے یہ سنا کہ احساس پروگرام بہت بڑا تھا جو کہ کرونا لاک ڈاؤن کے شکار لوگوں کی ضروریات کو پورا کر رہا تھا تو دوسری جانب آپ بتا رہے ہیں کہ اس کے کئی غلط اہداف تھے کہ ان کے زیادہ تر مستفیض افراد کا تعلق دیہی علاقوں سے تھا جب کہ اس کی زیادہ ضرورت شہری علاقوں کے ضرورت مند افراد کو تھی۔ اور اس الجھن کی ایک اور تہہ حال ہی میں سامنے آئی جب ہم نے کچھ ماہ قبل سنا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفیض ہونے والے افراد میں سے دو لاکھ کے قریب افراد اس کے مستحق تھے ہی نہیں۔ سو دراصل ہو کیا رہا ہے؟

حارث گزدر: اول یہ کہ اس ایک سوال میں کئی ایک سوالات پنہان ہیں، اس لیے ان کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک راہنما پروگرام تھا اور ہے۔ اس کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس کا ایک نظام ہے۔ سو جس طرح میں واضح کر رہا ہوں، اس کی بنیاد اعدادوشمار پر ہے جو کہ گھر گھر جا کر جمع کیے گئے۔ اس لیے اگرچیکہ یہ اب پرانے ہو چکے ہیں، اگرچیکہ یہ انتہائی پسماندہ کی نشاندھی کے لیے تھے، اس لیے ان اعدادوشمار کی ایک محدودیت ہے، تاہم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام تھا ہی اس مقصد کے لیے۔

احساس پروگرام سے مستفیض ہونے والوں میں سے نوے سے پچانوے فیصد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے تھے، اس طرح سے احساس پروگرام کوئی نیا پروگرام نہیں ہے۔ درحقیقت یہ پہلے سے ہی موجود ایک پروگرام کے اوپر ڈالی جانے والی تہہ ہے۔ سو، کرونا سے نبردآزما ہونے کے دوران جو کچھ بھی کیا گیا، اگرچیکہ اس کو احساس پروگرام کا نام دیا گیا لیکن ماسوائے دس فیصد اضافی مستفیض ہونے والے افراد کے، باقی تمام مستفیض افراد کا تعلق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فہرست سے تھا۔

اب آئیے اس کا جائزہ لیں کہ کرونا بحران سے قبل بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفیض ہونے والے افراد کے ساتھ کیا ہوا؟ احساس پروگرام کی تیاری کے دوران حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفیض ہونے والوں کے ضمن میں کیا پالیسی تیار کی تھی؟ جی، یقیناً۔۔۔ ایک مرحلے پر مستفیض ہونے والے افراد کی ایک بڑی تعداد کو فہرست سے خارج کیا گیا۔ میرے خیال میں یہ تعداد دو لاکھ سے زیادہ تھی۔ میرا خیال ہے کہ قومی سطح پر ایک مرحلے پر یہ تعداد آٹھ لاکھ کے قریب تھی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کون تھے؟ ان میں سے بہت سے وہ لوگ تھے جنہیں بعد ازاں باہر کیا گیا۔ اس سے میری مراد کیا ہے؟ جب یہ پروگرام ابتدائی طور پر لاگو کیا گیا تو مستفیض ہونے والے افراد کا انتخاب کرنے کا ایک مخصوص پیمانہ متعین کیا گیا تھا۔ بعد ازاں، شاید آج سے دو برس قبل، حکومت نے اس پیمانے میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا جس کے تحت سرکاری ملازمت کرنے والے افراد، یا جن کے خاندان کے افراد سرکاری ملازمت میں ہوں، وہ لوگ جو بیرون ملک گئے ہوں، یا جن کے خاندان کے افراد بیرون ملک گئے ہوں، لوگ جن کے مخصوص قسم کی بینکوں میں اکاؤنٹس ہوں یا جن کے خاندان کے افراد کے ایسی بینکوں میں اکاؤنٹس ہوں، اس پروگرام میں شامل ہونے کے اہل نہیں ہوں گے۔ درحقیقت، مستفیض ہونے والے افراد کی ابتدائی فہرستیں تیار کرنے کے وقت یہ پیمانہ متعین نہیں تھا۔ بلاشبہ حکومت کو ایسا کرنے کا حق حاصل تھا، قانونی حق حاصل تھا۔۔۔ پیمانے میں تبدیلی کا بورڈ فیصلہ کر سکتا ہے، کابینہ فیصلہ کر سکتی ہے۔

تاہم یہ کہنا کہ یہ لوگ اہل نہیں تھے اور پروگرام کا حصہ بن گئے، درست نہیں ہوگا۔ یہ لوگ اہل تھے۔ وہ اصل پیمانے پر پورا اترتے تھے جس میں تبدیلی کی گئی۔ بعد ازاں یہ کہا جانے لگا کہ یہ فراڈ تھے۔ بہرحال، یہ میرے خیال میں کچھ غیر ذمہ دارانہ گفتگو تھی، کیونکہ جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ اس کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں اس پروگرام کی ساکھ سے متعلق کئی سوالات کھڑے ہو سکتے ہیں جس کی شفافیت، درستگی اور اثر انگیزی کے کئی ایک جائزے لیے گئے۔ یہ درست ہے کہ ہر پروگرام میں مسائل سامنے آتے ہیں تاہم دیگر پروگراموں کے مقابلے میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک کارآمد پروگرام سمجھا جاتا تھا۔

سو یہ تھا قبل از کرونا معاملہ۔ سو ہوا یہ کہ جب کرونا حملہ آور ہوا تو ہم آئی ایم ایف پروگرام کے وسط میں تھے۔ یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ ہم پہلے ہی ایک بہت بڑے اقتصادی بحران کا شکار تھے۔ اس بحران کے ذمہ داران سے متعلق بات کرنے فی الحال وقت نہیں ہے۔ بلاشبہ انتظامی ناکامیاں تھیں اور ہر نوعیت کی اقتصادی ناکامیاں موجود تھیں۔ بین الاقوامی اقتصادی نظام میں بھی کئی معاملات ہو رہے تھے۔ بہرصورت ہم اس صورتحال میں تھے۔ ہم ایک ایسے آئی ایم ایف پروگرام کے وسط میں تھے جس نے حکومتی اخراجات کے ضمن میں، توانائی کے شعبے میں شرع سود کے حوالے سے کڑی شرائط عائد کی ہوئی تھیں اور ان اقدامات میں سے اکثر نے معیشت کو نچوڑ دیا تھا۔ چنانچہ جب عالمی وبا معیشت پر اپنے منفی اثرات کے ساتھ حملے آور ہوئی تو معیشت پہلے سے ہی ایک صدمے یا پسپائی کا شکار تھی۔ یا اس پروگرام کے حمایتی کہیں گے کہ وہ دیے جانے سے نسخے کے تحت کسمسا رہی تھی کیونکہ وہ قبل ازیں ہی مسئلے سے دوچار تھی۔

جب عالمی وبا نے حملہ کیا اور حکومت کو یہ ادراک ہوا کہ معاملات مشکل ہو جائیں گے تو حکومت پاکستان نے کئی دیگر حکومتوں کی طرح بھرپائی کے لیے آئی ایم ایف اور دیگر بیرونی قرضہ دہندگان کو رجوع کیا۔ اور نتیجتاً پاکستان کو امداد میسر ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ مارچ یا اپریل میں مذاکرات کا آغاز ہوا اور اس درمان نے ہمیں آئی ایم ایف پروگرام سے چھٹی دلا دی۔ اس طرح یہ گلوخلاصی کے بجائے ایک قلیل المدتی وقفہ تھا۔ اور اب ہم پروگرام میں ازسرنو داخل ہو گئے ہیں۔ تاہم یہ وقفہ حکومت کی جانب سے عالمی وبا سے نبردآزما ہونے کے حوالے سے کئی ایک اقدامات کی بنیاد پر تھا۔ سو کئی ایک حکومتی اخراجات کو سماجی تحفظ اور صحت کی جانب منتقل ہونا تھا۔

میرے علم میں ہے کہ تین اہم ڈونرز ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور ایشیائی سرمایہ کاری بینک نے فی کس پانچ سؤ ملین ڈالر کے طور پر کل ڈیڑھ ارب امریکی ڈالرز کی رقم دی تاہم اس کے ساتھ یہ شرط عائد تھی کہ یہ تقریباً تمام تر رقم سماجی تحفظ کے پروگرام کے تحت فوائد کے لیے ہی استعمال ہوگی۔

اسد سعید: جس طرح حارث کہہ چکے ہیں، اس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ جب آپ کے ہاں کوئی اہدافی پروگرام ہو، یا کوئی افقی پروگرام ہی ہو، تو کچھ مخصوص پیمانے ہوتے ہیں جو آپ کو مستفیض ہونے کا اہل بناتے ہیں۔ پاکستان میں یہ شدید غربت تھا۔ کئی دیگر صورتحالوں میں یہ پیمانے مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثلاً اگر سیلاب کی صورتحال ہے تو اس کے متاثرین اس سے مستفید ہوں گے جبکہ دیگر نہیں، یا اگر سمندری طوفان آتا ہے تو ساحل سمندر پر رہنے والے اس سے مستفیض ہونے کے اہل ہوں گے۔

دنیا بھر میں کسی بھی سماجی تحفظ کے پروگرام میں یا سوشل سکیورٹی پروگراموں میں، غلطیوں کا احتمال رہتا ہے۔ اور یہ غلطیاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک جب آپ غلط لوگوں کو درج کرتے ہیں، اور اس کو اندراج کی غلطی کہا جاتا ہے۔ دوسری غلطی درست لوگوں کو خارج کرنے کی ہوتی ہے۔ اس لیے ہمارے کیس میں موجود مستفیض افراد کو خارج کر دینے کا معاملہ سامنے آیا، چاہے اس کے لیے کوئی توضیح دی جا رہی ہو۔ سب سے پہلے یہ کہ، جیسا کہ حارث کہہ چکے ہیں، دس سال قبل یہ معاملات وجود ہی نہیں رکھتے تھے، یا اس وقت یہ سوالات نہیں کیے گئے تھے۔ اور دوئم یہ کہ اگر یہ معاملہ تھا بھی تو یہ ایک اندراجی غلطی ہی تھا۔

تاہم اسی دوران، برسوں سے ہم، خود حکومت، ذرائع ابلاغ اور ہونے والی تحقیق بھی اس امر کی نشاندھی کرتے رہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس پروگرام سے خارج رہی ہے، اور اس کے اسباب میں ان کے پاس قومی شناختی کارڈ کی عدم موجودگی یا کوئی مستقل پتہ نہ ہونا شامل تھے۔ اور یہ ایک بہت بڑی تعداد تھی، اور تقریباً بیس لاکھ افراد کو اس سے خارج کردیا گیا۔ سو اس پورے عرصے کے دوران اخراجی غلطیوں کی درستگی کے ضمن میں انتہائی کم اقدامات کیے گئے جبکہ زیادہ تر زور اندراجات کی غلطیوں پر دیا گیا، جو بھی سیاسی مصلحتوں سے پر تھا کہ موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں کی بدعنوانیوں اور بدانتظامی کا ڈھول پیٹنے کے لیے اتاولی رہتی ہے۔ سو ایک بہت بڑا فرق پہلے سے ہی موجود تھا جس کو پر نہیں کیا گیا۔ اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ غربت شماری 2010-11 میں کی گئی جس میں یہ کہیے کہ پانچ سال کے عرصے میں کوئی فرق آسکتا ہے۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے عرصے میں ایسا کوئی سروے مکمل نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی نئی فہرست مرتب کی گئی ہے۔

عائشہ خان: لگتا یہ ہے کہ شاید گزشتہ برس بڑی تعداد میں رقومات سماجی تحفظ کے لیے استعمال تو ہوئیں تاہم ایک ایسے پروگرام کے ذریعے جو شاید اس مقصد کے لیے نہیں تھا۔ آپ دونوں نے ایک طویل عرصہ پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں میں لوگوں کی ضروریات کو عملی طور پر سمجھنے کے لیے کافی وقت لگایا ہے، سو آپ دونوں بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کیا یہ قابل عمل ہے؟ کیا یہ پروگرام اس مقصد کے لیے مناسب تھا؟

حارث گزدر: میں یہ بات تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کہوں گا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفیض ہونے والے افراد، جن کو اب احساس پروگرام کے مستفیض کہا جا رہا ہے کے علاوہ بعد ازاں شامل کیے گئے افراد پاکستان کی غریب ترین آبادی کا حصہ ہیں، اور اس کو تسلیم نہ کرنے کا میرے پاس کوئی جواز نہیں ہے، اور ان کو منتقل کی گئی رقومات سے متعلق مجھے کوئی شکایت نہیں ہے۔

تاہم اس ضمن میں میرے پیش نظر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کچھ بہتر کرنے کا موقع تھا جو کہ ہم نے گنوا دیا۔ دراصل یہ ضائع ہونے والا موقع کیا تھا، یہ موقع تھا دراصل پروگرام کو بہتر بنانے کا، اس کو مزید کارآمد بنانے کا، اس کو مزید تیز تر بنانے کا، ہمیں اب درپیش ضروریات کی جانب زیادہ اثر انگیزی کے ساتھ مداخلتوں کی ترویج کرنے کا، جو کہ ہمارے ملک کو مستقل بنیادوں پر درپیش ہوتی ہیں، میرے خیال میں عالمی وبا تو اس ایک سال تھی لیکن یہ ذہن نشین رکھئیے کہ ہم اس ملک میں ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر ہیں کہ ہر دوسرے برس ہمیں سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ہر سال مختلف علاقوں میں قحط سالی کی صورتحال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی طرح کے عذاب جیسا کہ ٹڈی دل کا حملہ، سامنے آتے رہتے ہیں جو لوگوں کو ان کی جمع پونجی سے محروم کر دیتے ہیں۔ اور یہ لوگوں کو حقیقتاً حاشیے پر پھینک دیتے ہیں۔ میرے خیال میں یہاں حکومتی ذمہ داری کا معاملہ سامنے آتا ہے کہ اس کے پاس موقعہ تھا تو وسائل بھی۔۔۔ کہ حقیقتاً بہتر کچھ کرنے کے لیے اور یہ نہیں ہو سکا۔ میرے لیے یہ قابل افسوس امر ہے کہ میرے ملک نے یہ موقع ضائع کردیا۔

عائشہ خان: تو پھر مباحث میں کیا کچھ نہیں تھا؟

اسد سعید: میرے خیال میں گزشتہ کچھ برسوں کے دوران پاکستان میں بدقسمتی سے سماجی تحفظ اور اس میں پیش رفت یا اس کے پیمانے کیا ہوں پر بحث و مباحثے کی عدم موجودگی رہی ہے۔ اگرچیکہ غریبوں کی مدد کرنے سے متعلق باتیں تو بہت زیادہ کی جاتی ہیں تاہم ہم یہ کریں گے کن بنیادوں پر اس سے متعلق کوئی گفتگو یا بحث نہیں کی جاتی۔

ترقی پذیر ممالک میں ہمہ گیر بحث و مباحثہ اب ان عوامل کا بھی احاطہ کرتا ہے کہ سماجی تحفظ اگرچیکہ آفاقی ہے جو کہ تمام شہریوں کے لیے ہو تاہم اس میں غریب ترین آبادی کو حاصل ہو۔ یہ یاد دہانی کیجیے کہ پاکستان میں راشن کارڈ کا طریقہ زیر عمل تھا جو کہ درحقیقت نوآبادیاتی ریاست سے مستعار کیا گیا تھا۔ یہ نظام کچھ مخصوص غذائی اجناس رعایتی نرخوں پر فراہم کرتا تھا اور ہر کوئی اس کا اہل تھا۔ تاہم کئی وجوہات کی بنا پر، اس کے اکثر مستفیض ہونے والے افراد وہ تھے جو اس کے باعث یہ مخصوص اجناس خرید پاتے تھے۔ اور یہ عمومی طور پر گندم، چاول، خوردنی تیل اور شکر جیسی بنیادی غذائی اجناس تھیں۔ پاکستان میں یہ نظام 1970 کے عشرے میں ختم کر دیا گیا۔ بھارت نے اس کو جاری رکھا۔ بھارت میں اس کو عوامی تقسیم کا نظام کہا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اب اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاہم اس پر بحث جاری ہے کہ آیا یہ آفاقی ہو یا کہ اہدافی۔

اگر آپ کے وسائل محدود ہیں تو اہدافی بہتر ہے اور آج کل ٹیکنالوجی بھی میسر ہے جس کے ذریعے قومی اعدادوشمار سے لوگوں کی نشاندھی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کئی ایک امور ہیں کہ جن پر بحث نہیں ہو رہی ہے کہ کس کو ہدف بنایا جائے یا مستفیض ہونے والی آبادی کون سی ہو، وہ کون ہیں جو منڈی سے مستفیض نہیں ہو پاتے۔ نتیجتاً کئی ایک معاملات کو عارضی بنیادوں پر برتا جاتا ہے۔

آج کل ہمارے ہاں پناہ گاہیں شروع ہوئی ہیں جو کہ غریب لوگوں کو پناہ فراہم کرتی ہیں۔ اگر ان پناہ گاہوں سے مستفیض ہونے والے افراد کی تعداد پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ ضرورت مند افراد کی کل تعداد کا ایک انتہائی معمولی حصہ ہے۔ یا ان دستر خوانوں کو دیکھئیے جس کی حال ہی میں وزیراعظم نے بھی تشہیر کی ہے، ملک کو درپیش غذائی قلت کے مسئلے سے نبردآزما ہو ہی نہیں سکتے۔

اب یہ کسی حد تک ایک معتدل بحث کے ذریعے ہوسکتا ہے کہ ہم کن کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں؟ اور کس ترجیح کے تحت تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں؟ اور اس کا دوسرا عنصر یہ ہے کہ ہم اس پر کتنی رقم صرف کرنا چاہتے ہیں؟ سماجی تحفظ کے لیے ہماری مالیاتی صورتحال کیا ہے؟ اور یہ اخراجات کے ضمن میں قومی ترجیحات کیا ہیں؟ کیا ہم دفاع پر خرچ کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم بنیادی ڈھانچے پر خرچ کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم ماحولیاتی تحفظ پر خرچ کرنا چاہتے ہیں؟ اور کیا ہم سماجی تحفظ پر خرچ کرنا چاہتے ہیں؟ اس وقت ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت عوامی مقبولیت کا دور دورہ ہے، بہت زیادہ سورما پن ہے۔۔۔ لیکن حقیقی بحث و مباحثہ نہ ہونے کے برابر ہے، نہ سیاسی سطح پر اور نہ ہی علمی سطح پر۔

عائشہ خان: تو بنیادی طور پر، جیسا کہ میں سمجھ پائی ہوں کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سیاست دان نیک نیتی سے خوراک فراہم کرنا چاہتے ہوں گے، سائبان دینا چاہتے ہوں گے، نقد رقومات کی منتقلی چاہتے ہوں گے لیکن جب تک یہ کچھ ایک جامع پالیسی کے تحت نہیں ہوگا، اہداف غلط ہوتے رہیں گے۔ اور امکانی طور پر بوقت ضرورت صحیح لوگ اس وقت مطلوبہ مدد حاصل نہیں کرپائیں گے۔

اسد سعید: یا پھر آپ چیزوں کو عارضی بنیادوں پر کریں جو کہ بنیادی امور کو مخاطب نہیں کرتیں۔ اس ضمن میں پناہ گاہوں اور غذائی پروگراموں کی ہی مثال لے لیں جو کہ بنیادی مسائل کو مخاطب نہیں کرتے، نہ وہ غیر مناسب رہائش گاہوں کے بنیادی مسئلے کو مخاطب کرتے ہیں۔

عائشہ خان: لیکن کچھ نقاد کہیں گے، جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ سماجی تحفظ سے درحقیقت غربت کے پیچھے کارفرما عناصر کو مخاطب نہیں کیا جاسکتا

حارث گزدر: سماجی تحفظ کا پورا معاملہ اس وقت ابھر کر سامنے آیا جب یہ واضح ہوگیا کہ دنیا منڈی کی معیشت کی جانب جا رہی ہے۔ کہ لوگ کام کاج کر رہے ہوں گے، منڈی انہیں روزگار فراہم کرے گی یا پھر لوگ بے روزگار ہوں گے یا پھر لوگ پینشن کی عمر میں ہوں گے۔ سو وہ تمام لوگ جو منڈی میں سرگرم کام کاج کرنے کی حیثیت میں نہیں ہوں گے، یا جن کی اجرتیں خود منڈی کے تناسب میں بھی کم ہوں گی کی مدد کے لیے سماجی تحفظ زیر عمل آیا۔ اس طرح سے ہی سماجی تحفظ کی پوری بحث شروع ہوئی۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم اسی تناظر میں رہیں۔ اور اس طور ہم روزگار میں اضافے، آمدنی میں اضافے اور معیشت کی بہتری کی یقین دھانی جیسے دیگر امور پر کوششیں کرتے ہوئے لوگوں کے تحفظ کے طور پر سماجی تحفظ پر بھی سوچنے کا عمل جاری رکھیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دوران اور گزشتہ برس کے دوران میں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ اگر آپ اچھے نظام وضع کرنے کے لیے وسائل اور سیاسی سرمایہ کاری دونوں کریں گے تو ہمیں وہ طریقہ کار میسر ہوں گے جو لوگوں کی بوقت ضرورت مدد کرسکیں گے۔ تاہم نظام بنانا ایک محنت طلب کام ہے، مستقل مزاجی کا کام ہے اور اس کے لیے بے انتہا کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اور یہ شاید آپ کو سیاسی تشہیر نہ بھی دے، یہ زیادہ تر خاموشی کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔ اور بالآخر آپ کو اس کا سیاسی فائدہ حاصل ہوگا یا آپ کچھ شہرت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتی ہیں یہ اسی طرح سے ہے لیکن یہی دنیا کے ہر ملک کا تجربہ ہے۔ خود یورپ جنگ عظیم دوئم کے بعد اپنے سماجی فلاح و بہبود کے نظام کی تشکیل کے دوران اس سے گزرا۔ گو کہ ہم انہیں سماجی فلاح و بہبود کی ریاستیں کہتے ہیں لیکن درحقیقت انہوں نے نظام بنائے جو عملاً کچھ کر پائے۔ ہم بھی ایک طرح سے نظام وضع کرنے کی راہ پر گامزن تھے لیکن ایک مرحلے پر ہمارا یہ سفر رک گیا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ نظام نہیں بنا رہے ہوتے ہیں تو اس وقت آپ شہ سرخیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں اور اس سے بھی آپ تشہیر حاصل کر لیتے ہیں جیساکہ اسد نے پناہ گاہوں اور دسترخوانوں کی مثال دی۔ تاہم اصل کام نظام بنانا، ان کو چلانا اور بہتر کرنا ہے اور یہی اس وقت تمام ممالک کا حقیقی کام ہے۔

اسد سعید: ترقی پذیر ممالک میں اور بالخصوص بعد از نوآبادیاتی ممالک میں سماجی تحفظ شہریت کے ضمن میں، بااختیاری کے ضمن میں انتہائی اہم ہے،جہاں شہری اور ریاست ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ کے انداز میں یا پھر جبر کے روپ میں تعلق میں آتے ہیں۔ اس طرح غریب ترین شہری ریاست کے ساتھ قانون نافذ کرنے والوں یا عدالتوں کے ذریعے تعلق میں آتے ہیں۔ تاہم یہاں پر شہریوں اور ریاست کے درمیان ایک مثبت تعلق پیدا کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ سو اس کے فوائد میں، غریب ترین آبادی کو حاصل ہونے والے مادی فوائد کے علاوہ یہ قومی تشکیل اور قوموں کو شراکتی معاشروں میں تبدیل کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔

عائشہ خان: کئی ایک سنجیدہ مسائل قابل مخاطب ہیں اور ہمارے پاس وقت کی تنگی ہے جس کی وجہ سے ہم بحث کو درست حل کی جانب لے جاسکے۔ تاہم اسد سعید اور حارث گزدر آپ دونوں کا ہمیں وقت دینے کا شکریہ۔ میں نے بلاشبہ اس گفتگو سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اور یہ سمجھ میں آتا ہے کہ درست طور پر ہدف کیے ہوئے اور قابل اعتبار سماجی تحفظ کے پروگراموں کی اشد ضرورت ہے بالخصوص جب ہمارے شہری عالمی وبا سے جھونجھ رہے ہوں۔ اب جبکہ اس کی تیسری لہر ہمارے سر پر ہے، یہ دیکھنا باعث دلچسپی ہوگا اب ہماری حکومت غریبوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔

یہ پوڈ کاسٹ فلمز ڈی آرٹ کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔ ریکارڈنگ کی سہولیات فراہم کرنے پر میں ساؤنڈز گریٹ اسٹوڈیو کی مشکور ہوں۔ امید ہے کہ آپ کو ہماری پوڈ کاسٹ سیریز کھوج کی دوسری قسط پسند آئی ہوگی اور اگلی مرتبہ بھی آپ اپنا قیمتی وقت اس کے لیے صرف کریں گے، تب تک خدا حافظ۔

ترجمہ اسلم خواجہ

Card image cap

Episode 1: Why We March?

Date:22-02-2021

Description: How feminist activists mobilize women from different sections of society to demand their rights and celebrate themselves at the annual Aurat March.

Transcript KHOJ - Episode 1 transcript
Ayesha Khan (AK), Moneeza Ahmed (MA), Qurat Mirza (QM), Fatima Majeed (FM), Pastor Ghazala (PG)

[Slow music]

AK: Assalam o alaikum and welcome to the launch of ‘Khoj’. This is the podcast series hosted by the Collective for Social Science Research. We are a development research organization based in Karachi working on a wide range of issues from gender to social protection, economics and policy analysis to name just a few. Through our podcast we will share with you some of the fascinating findings of our deep dives into the communities and issues we study.

My name is Ayesha Khan, and I have been working for many years on gender and development issues here at the Collective. Today’s podcast draws on our research with women in protest actions in Pakistan. This work is part of a programme called Action for Empowerment and Accountability, a multi-country research initiative hosted by the Institute of Development Studies in the UK.

We examined protests which were episodic, meaning they happened repeatedly, exploring how the initial protests developed into collective action, how women’s demands changed and evolved over time, and what outcomes they achieved.

Not all of the contentious episodes were explicitly feminist yet we found that where women were involved in protest actions, the attention to gender empowerment grew overtime. We asked whether the special context in Pakistan offered new opportunities for women to exercise leadership through collective action. And if so, how did they exercise this leadership?

Our research methods were qualitative relying mainly on key informant interviews with women leaders. We also attended some protests and analysed the content of women's public speeches and finally we catalogued media coverage of the protest to highlight significant moments.

The Aurat March began as an initiative by young feminist activists in Karachi to mark International Women's Day and highlight the lack of gender justice in Pakistan. It was inspired by the global #MeToo Movement but has brought together women from diverse causes and organisations on its platform. The annual Marches mobilise thousands of women in more cities every year to demand greater rights and freedoms, better employment, housing, security and to call out the everyday misogyny in our midst. In fact the March has brought more women and LGBTQI people on to the streets than any other feminist mobilisation during this generation. And as many of you may know, the Aurat March also led to controversy from some religious groups, media channels, and sectors of society who argue the slogans go against our social and religious values.

[chanting at Aurat March -- Azaadi -- Qurat Mirza leading]

One of the first people I spoke to was Moneeza Ahmed who has been organising the Karachi Aurat March each year since 2018. We met during a break from her office job and sat down for coffee to talk. Moneeza told me that she has been an activist since her student days in Toronto, Canada. When she came back to Pakistan over a decade ago, she was interested in working with young people and joined the Lawyers' Movement too but she soon became disillusioned by what she calls civil society politics. And I asked her why.

MA: I just feel like it wasn't longer term engagement with people, with communities, with certain kind of like constituencies jin kai baray main aap baat kar rahay hain, bol rahay hain. Aik koi longer term engagement, relationship-building as such itni nahi thi. I know these are organisations which are doing that but overall jo civil society hai, it's very loose, very unstructured which is great, which can be great but then it can also be very short term.

AK: So I asked Moneeza what were they marching for?

MA: For me I feel like at least the main apnay reason ki baat kar sakti hoon but I think everybody was, was about showing political presence of women. Uh... and it was also shown, you know organising women. Because I think donon taraf sai zaroorat hai. It is the state that needs to take women seriously but it's also women who need platforms and who need to organise themselves to have that voice and to be political in that way, right?

AK: After meeting with Moneeza, I went to interview another feminist leader from the Aurat March Karachi. Her name is Qurat Mirza and I met her in yet another busy cafe in the city. She agreed with the idea that the March was about doing politics.

QM: Maqsad dekhain ye tha kai March jo hoti haina it's a very political action. Jo aap sarak par arahay hotay haina it's like you are showing your presence and you are showing, aap state ko bata rahay hotay hain kai ji we exist aur hum jo hain woh ab resistance ki movement ki taraf jayeingay. Hum... aik aik political action hai. Tou mujhay lagta tha kai ziyadatar jaisay humara kaam hua hai even Sindh Assembly main bhi legislations kai hawlay sai tou bohat progressive, bohat acha kaam hua hai. Lekin woh sara kaam aik hi tareekay ka horaha tha jaisay lobbying horahi hai, advocacy horahi hai, ye horaha hai. Aur of course woh un hi aurton kai liyay horaha haina jo kai more than 50% of the population of this country. So, humein jo ye group tha, humein lagta tha kai ye saari cheezain bohat achi hain ye hoti rehni chahiyen lekin aurton ko politicise bhi hona chahiye. Aur March aik aisa political action tha jis main log agar sirf shaamil bhi horahay hain tou woh aik, woh politicise horahay hain uss March main rehtay huay, woh jo organising horahi hoti hai uss kai doraan - aap logon sai jur rahay hotay hain, mil rahay hotay hain, woh aik saari aik aik aap politicisation ka aik amal hai. Tou humein ye laga kai bohat zaroori hai iss waqt kai aurton ko jo kai inko lagta hai kai ye issues un kai nahi hain like agar kisi aurat ko lagta hai kai domestic issue kisi aur kai ghar ka issue hai, meray issue nahi hai tou iss baat pai aurton ko politicise karna kai ye bhi sab ka issue hai.

Tou aurat jab iss society ka aadhay sai zyada hissa hai tou hum tou har issue main uss hi tarha kharay thay na. Be it like kai militarisation ho ya woh capitalism ho yaani jo bhi aap kai upar hain dikatein un main sab main tou aurtein uss hi tarha khari hain jis tarha haq hota hai.

AK: The organisers of Aurat March soon realised that facilitating a movement requires a lot of planning. I asked Moneeza how the organising committee was formed?

MA: So that was very organic uh that was very like whoever sort of... so we did three weeks of just meeting women and then we did do one meeting uhm which was a lot of younger women and that kind of became the organising committee.

So we had a very much non-hierarchy policy. Dou teen cheezain hain jo became the principles of the March was no hierarchy, no NGO funding, and no NGO banner and no political party invitations and those things were very much pushed by everybody. There are about 25-30 women in the organising committee...

AK: If the Aurat March organisers wanted to break new ground and mobilise different groups to protest, I wondered how they went about identifying communities to approach.

MA: Actually just by contact. We did not have any procedure kai humein in in main jana hai. We’re... well actually, the one thing was that we definitely need to hit the marginalised communities jin main humein jo humaray liyay focus tha was minorities. So we did a lot of outreach in Christian and Hindu communities.

AK: One community that brought women to the March was the Pakistan Fisherfolk Forum that works to protect the livelihoods of coastal communities in Sindh and Balochistan. Fatima Majeed is Senior Advisory Chairperson of the forum. She has been in politics as well as a member of Karachi's District Council and as a candidate for election on a PPP ticket. We went to Ibrahim Hyderi and spoke with Fatima about her work and how she mobilised for the Aurat March.

FM: Mera bhi shoq tha, mainay kaha kai ye kuch alag honay jaraha hai tou iss main hum log shaamil hongai. Tou main thora sa un dinon party kai kuch program bhi thay uss main masroof thi lekin main sirf do dinon ki mobilisation sai main 6 busein le kar gayi thi wahan pai bhar kai aurton sai, haan. Tou mainay uss main Aurat March main jo hai wahan par shareek hui thi.

Phir iss main mainay mobilisation ki aur jo hai main aurton ko uss main lekar gayi aur aurton ko bohat maza aya uss main. Haan unko bohat maza aya tha woh keh rahi thein kai iss baar hum nai jo ye program kia haina iss main humein bohat maza araha tha. Aik tou yeh kai humein jo hai koi woh pabandi nahi thi. Aurtein jo hain apni marzi sai jo hai woh kar rahi thein. Baat kar rahi thein. Aur har koi apnay, apnay tareekay sai jo hai woh apni, apna ahtejaj kar raha tha.

AK: We asked Fatima whether they faced any backlash for taking part in the March?

FM: Humaray mardon nai tou nahi woh kyunkai meray saath atay jatay hain unka tou aisa koi khayal nahi tha woh tou aik taraf bethay huay thay. Woh ye samajh rahay thay kai nahi humari aurtein aayi hain, ye saari jo hain saray tabqon sai taaluq rakhnay wali aurtein yahan par hain tou aurton ko bhi mauka milna chahiyay na kai woh apnay tareekay sai apni baat rakehin, ahtijaaj karein aur matlab jab woh unkay, aurton kai haqooq ka aik aalmi tor par aik din manaya jata hai woh apni poori azadi sai manayein. Unko mauqa milna chahiyay. Aur, doosri baat ye hai kai thora sa mujhay community main aisi baatein matlab sunain ko mili kai jo slogan kuch in logon nai banaye thay na tou uss par mujhay... lekin phir mainay face bhi ki. Un sai behes bhi hui meri. Aur kuch slogan kai tou unki wajah sai matlab keh rahay thay kai ye jo hai... Matlab "lo main beth gayi" ya "mera jism meri marzi" tou is tarah ko zahir hai woh us kai peechay tou matlab aisi koi baat nahi thi. Woh aik protest thi woh bhi uss kai peechay lekin logon nai usko apnay... Zahir hai jiski jitni soch hogi woh utna hi usko lega na.

AK: We asked Fatima what were the demands of her community during the Aurat March and what did their slogans look like?

FM: Humara tou ye tha aik hum nai tax kai hawalay sai banaye thay na - tax justice kai hawalay sai. Kai aik tou ye hai kai humaray khanay peenay ki aur ye roz marah ki istimaal ki cheezain hain uss par jo matlab uss par tax na lagaya jaye. Aur humari aurton par jo hai woh tax ka bojh hai woh kam sai kam kiya jaye. Aur doosri humari demand aur bhi thein matlab mangroves kai hawalay sai thi aur samandar kai hawalay sai thi. Matlab ye sari humari rozgari kai hawalay sai thi.

Aurton kai hawalay sai bhi thein kai humari aurton ko barabari ki hawalay sai. Kai yaqsa kaam aur yaqsa ujrat, aurton ko matlab barabari di jaye. Unkai huqooq jo hain woh agar mardon kai barabar kaam karti hain tou unko barabari ka haq diya jaye.

Hum aik goth sai arahay hain na theek hai ab Ibrahim Hyderi bohat bara hogaya hai lekin yahan ka humara apna culture hai na. Hum apnay tareekay sai yahan par rehtay hain aur jab iss maahol... Humara maahol zahir hai alag hai aur hum jab iss maahol sai nikal kai hum nai apni saari aurton ko... Meray saath aurtein saari woh hain, saari ghareeb hain - theek hai gharon main kaam karti hain, banglow main aur factoriyon main jaati hain ya apna koi ghar main kaam kar rahi hoti hain tou woh meray saath jab jaati haina tou doosron kai saath iss tarha matlab mil kai bethti hain tou unko acha lagta hai. Aur woh keh rahi thein kai meri aurtein jo meray saath jaati hain woh bata rahi thein kai hum log aur bhi program main gaye hain lekin iss baar bohat matlab... koi faraq mehsoos nahi horaha. Barabari. Hum sab barabar bethay huay hain. Saari jo aurtein hain woh mukhtalif tabqon sai ayein hain aur woh aik hi jagah sab barabar bethay huay hain - koi bara nahi hai, koi chota nahi hai. Aur main ye samajhti hoon kai sab sai zyada enjoy meri aurton nai kiya hoga kyunkai sab sai zyada naach woh rahi thein.

[Aurat March chants]

AK: I wanted to find out more about the diversity of the participants of the March. Qurat Mirza explained.

QM: Jin logon kai saath hum organize kar rahay thay woh aam community kai log thay - aurtein thi. Aur uss main students thay, uss main jo underprivileged areas hain ya far-flung areas hain even Karachi kai outskirts main udhar ja kai un aurton ko keh rahay thay. Aur woh aurtein jo kai kisi na kisi tarha victim hain, kisi na kisi tarha in saari cheezon sai guzar rahi hain. So, humara jo target. Hum jin kai saath kaam kar rahay thay woh thi aurtein, aur sexual minorities jiss main transgenders bhi thay aur jiss main religious minorities ki taraf sai aurtein thi, working women thi, polio workers thi, lady health workers thein. Aur jo message hum dena chah rahay thay woh state ko tha.

AK: It seemed to be that the young feminists of Aurat March wanted to do things differently from the older activists who began the modern women's movement in the 1980s. This movement was led by a group called Women's Action Forum (WAF) or "Khawateen Mahaz e Amal" in Urdu. This was not an NGO but a platform for mainly educated and urban-based women to lobby with government to remove discriminatory laws against women and make policies that protect women's rights. WAF still exists today, in fact Qurat is a member of its Karachi chapter. I asked her how the Aurat March organizers felt they were different from WAF?

QM: Dekhain strategy main, main abhi tak usko explore kar rahi hoon kai farq kiya hai kyunkay main khud bhi part rahi hoon. Aik tou mujhay lagta hai kai Women's Action Forum ki rahi hain bohat achievement rahi hain - achievements sai zyada lafz hai contribution bohat raha hai. Lekin woh zyada, it's a advocacy main, aap woh samajh lein think tank ya iss tarha ka hai group. Aur issues bhi iss tarha kai hain kai agar koi araha hai tou unn kai issues ko suna hai lekin jo politicization hai unka ye hai kai woh aik issue ko lekai zyadatar legislation aur iss tarha pai kaam kartay hain...

Forced conversion bill, uskay upar sab nai bohat kaam kiya lekin woh kahin aik jagah ja kai woh nahi ho saka pass. Humein ye laga kai agar iss kai peechay aik bohat bari quwat aurton ki hoti aur hum agar sarkon par nikal kar atay aur boltay, "No, we want this" tou riyasat majboor hoti hai jab aap kai log chahtay hain... woh gap humein nazar aya.

AK: So it sounds to me that younger feminists are impatient with the lack of progress on important legislative reforms, among other issues. They want to generate support on the streets to push politicians to act. But this approach has some risks as well. Some right-wing groups threatened legal action against Aurat March organizers, and certain activists received threats. In 2020 there was a court petition to stop the March in Sukkur, which eventually failed, but still – I wondered if the backlash generated some fear amongst the activists. Qurrat told me that the public never expected five thousand women to come out on the streets of Karachi or other cities like Lahore, Islamabad, Peshawar and Quetta. And the controversial posters were meant to provoke discussion and debate about our social values that were harming women’s rights. The backlash took a while, but when it came it was not only from the usual quarters, but also from liberals, from those Qurat calls misogynistic. I asked her to explain.

QM: So, uh there are like 'boys' out there jo kai educated bhi hain, itnay practicing bhi nahi hain kisi religious jamaat kai saath bhi taaluq nahi hai lekin unki masculinity itni hurt hui hai kai hum jab keh rahay hain "mera jism meri marzi" tou unkay zehn main ye araha hai kai bhai "how dare" you know? So woh aik nexus ban gaya hai kyunkai jo religious fundamentalists hain unka bhi wohi hai kai kisi tarha aurat ki sexuality ko control karna hai - this is what patriarchy is so woh donon cheezain aik jagah jama hogayi. Tou iss tarha hua kai pehli jo Aurat March thi uss main tou bohat clear tha kai ji religious fundamentalists and you know these misogynist people who are there left, right and centre jo bhi hain, lekin uska jo backlash aya uss main time laga because samajhnay main unko zara der hogayi kai "mera jism meri marzi" aur you know sara kuch...

AK: I asked Qurat what the organisers’ strategies have been apart from hosting the annual Aurat March.

QM: Hum tou aik rishta jornay ja rahay hotay hain aur jab woh rishta jur jata hai humara uskay baad hum Aurat Haq main jatay hain aur hum ye kehtay hain kai aap ki siyasat kiya hai, humein apni siyasat sikhayein aap. Hum ye nahi chah rahay kai hum aap ko siyasat sikhayeingay - tou aap ka issue jo hai woh domestic violence issue hai so uss main ye hua kai jaisay Aurat March main hum fisherfolk community kai saath juray. Aurat Haq main uss juray rehnay main ye hua kai woh log humein apni problems batanay lagay. So foran unka hota hai kai ji kahan pai hum aap ko support kar saktay hain aur kahan pai aap humein support kar saktay ho tou it's more kai relationship-building kai liyay. Humara bilkul ye target nahi hai kai hum ye collective bananay ja rahay hotay hain ya koi leadership banana chah rahay hain ya koi membership... Abhi it is too early. Hum nai kahin dafa socha kai hum membership days kuch kar sakein but we want kai thora grow karein. Hum sirf dostiyan bana lein ja kai iss hi tarha jaisay minorities groups hain humaray saath jo Christian minority kai group hain, unkai issues hotay hain tou unkay saath hum jurtay hain aur kuch cheezain hoti hain jo hum samnay le kar arahay hotay hain, kuch cheezain hoti hain kai aapus main hum sirf baat kar rahay hotay hain.

AK: Pastor Ghazala is a Christian scholar and leader who founded her own religious order for Christian women in Karachi, called "Bait ul Momineen". She responded to the Aurat March invitation and brought women from her community to join in every year. I asked her what she thought the protest action has accomplished.

PG: Aur jo mujhay bohat acha laga Aurat ye Haq ka jo platform bana aur iss main saari young larkiyan hai. Aur aap agar jawani sai activism seekh letay hain na, sensitise hojatay hain tou aap zahir hai jahan pai bhi hain, aap aik influence... Aap apnay ghar pai bhi influence kartay hain, ap apnay school hai, college hai, university hai isko bhi influence kartay hain. Tau mujhay bohat khushi hui hai Aurat Haq aur iss Aurat March sai kai young activists bohat samnay aye hain tou uss main Aurat March tou aik huge impact usnay dala hai. Aur main kehti hoon kai collectiveness ayi hai khawateen kai andar. Mainay iskay baad dekha hai kai collectiveness bohat aayi hai kai ikatha hona chahay woh bari umar ki khatoon hon ya choti hai - they all are coming together aur sab aik doosray ko space de rahay hain.

AK: Pastor Ghazala feels the long term success of the Aurat Marches will be secured if women politicians, such as MNAs and MPAs can be brought onto its platform.

PG: Dekhain ye mainay kaha bhi tha Aurat March walon sai bhi kai humein ja kar political jo humari khawateen hain MNAs MPAs hain, un sai ja kai Aurat March walon ko milna chahiye. Aur main sochti hoon kai Aurat March aik wahid aisa platform aya jahan aurat khul kai nikli, khul kai naachi bhi hai aur boli bhi hai.

AK: While the internal debates about who to involve and how to strategize continue, the next Aurat March, 2021, is upon us. We look forward to seeing how activists will unite and organize to put forward their demands. In the current climate of shrinking civic spaces in Pakistan it may be harder than ever to mobilize for women’s rights.

[Aurat March music and chants]

AK: This podcast was produced in collaboration with Films D’art. I would also like to thank my research officer Asiya Jawed for her contribution. I hope you enjoyed the first episode of our podcast series Khoj and hope you will tune in on our next episode. Until then, Khuda Hafiz.

[soft music]

A special thanks to Komal Qidwai, Zonia Yousuf and Fatima Jafar for their research support.
Translation KHOJ - Episode 1 English translation
Ayesha Khan (AK), Moneeza Ahmed (MA), Qurat Mirza (QM), Fatima Majeed (FM), Pastor Ghazala (PG)

[Slow music]

AK: Assalam o alaikum and welcome to the launch of ‘Khoj’. This is the podcast series hosted by the Collective for Social Science Research. We are a development research organization based in Karachi working on a wide range of issues from gender to social protection, economics and policy analysis to name just a few. Through our podcast we will share with you some of the fascinating findings of our deep dives into the communities and issues we study.

My name is Ayesha Khan, and I have been working for many years on gender and development issues here at the Collective. Today’s podcast draws on our research with women in protest actions in Pakistan. This work is part of a programme called Action for Empowerment and Accountability, a multi-country research initiative hosted by the Institute of Development Studies in the UK.

We examined protests which were episodic, meaning they happened repeatedly, exploring how the initial protests developed into collective action, how women’s demands changed and evolved over time, and what outcomes they achieved.

Not all of the contentious episodes were explicitly feminist yet we found that where women were involved in protest actions, the attention to gender empowerment grew overtime. We asked whether the special context in Pakistan offered new opportunities for women to exercise leadership through collective action. And if so, how did they exercise this leadership?

Our research methods were qualitative relying mainly on key informant interviews with women leaders. We also attended some protests and analysed the content of women's public speeches and finally we catalogued media coverage of the protest to highlight significant moments.

The Aurat March began as an initiative by young feminist activists in Karachi to mark International Women's Day and highlight the lack of gender justice in Pakistan. It was inspired by the global #MeToo Movement but has brought together women from diverse causes and organisations on its platform. The annual Marches mobilise thousands of women in more cities every year to demand greater rights and freedoms, better employment, housing, security and to call out the everyday misogyny in our midst. In fact the March has brought more women and LGBTQI people on to the streets than any other feminist mobilisation during this generation. And as many of you may know, the Aurat March also led to controversy from some religious groups, media channels, and sectors of society who argue the slogans go against our social and religious values.

[chanting at Aurat March -- Azaadi -- Qurat Mirza leading]

One of the first people I spoke to was Moneeza Ahmed who has been organising the Karachi Aurat March each year since 2018. We met during a break from her office job and sat down for coffee to talk. Moneeza told me that she has been an activist since her student days in Toronto, Canada. When she came back to Pakistan over a decade ago, she was interested in working with young people and joined the Lawyers' Movement too but she soon became disillusioned by what she calls civil society politics. And I asked her why.

MA: I just feel like it wasn't longer term engagement with people, with communities, with certain kinds of constituencies - the ones we usually talk about. There is no longer term engagement, relationship-building as such. I know these are organisations which are doing that but the overall civil society is very loose, very unstructured - which is great, which can be great but then it can also be very short term.

AK: So I asked Moneeza what were they marching for?

MA: For me, I feel like at least I can talk about my reason, but I think for everybody it was about showing the political presence of women. Uh… and it was also shown, you know, organising women. Because I think it needs to be from both the sides. The state needs to take women seriously but it's also women who need platforms and who need to organise themselves to have that voice and to be political in that way, right?

AK: After meeting with Moneeza, I went to interview another feminist leader from the Aurat March Karachi. Her name is Qurat Mirza and I met her in yet another busy cafe in the city. She agreed with the idea that the March was about doing politics.

QM: The goal of the March is for it to be a political action. When we come on the streets, we show our presence to the state so they know that we exist and are now moving towards a resistance movement. This is a political action. I believe that the work that has been done in the Sindh Assembly is quite progressive, it is good work. However, similar kinds of work has been done. For example, people are doing lobbying and advocacy related work. And of course, all of this work is for women who make up 50% of the country’s population. So our group believed that all of these things are great and they should keep happening but women need to be politicized too. And the [Aurat] March is a political action that politicizes people even if they are merely a part of it. While organizing for the March, we meet people and connect with them which is part of the politicization. We think that politicization is imperative for women at this time. Women who think that domestic issues are not their issues because they don’t face these in their homes need to be politicized. Since women are more than 50% of the country’s population, they need to stand up against these issues. From militarization to capitalism, women are standing up against these issues and demanding their rights.

AK: The organisers of Aurat March soon realised that facilitating a movement requires a lot of planning. I asked Moneeza how the organising committee was formed?

MA: So that was very organic uh that was very like whoever sort of... so we did three weeks of just meeting women and then we did do one meeting uhm which was a lot of younger women and that kind of became the organising committee.

So we had a very much non-hierarchy policy. Dou teen cheezain hain jo became the principles of the March was no hierarchy, no NGO funding, and no NGO banner and no political party invitations and those things were very much pushed by everybody. There are about 25-30 women in the organising committee...

AK: If the Aurat March organisers wanted to break new ground and mobilise different groups to protest, I wondered how they went about identifying communities to approach.

MA: Actually, just by contact. We did not have any procedure that we have to go to these specific communities. Well actually the one thing that we confirmed was that we definitely need to hit the marginalised communities where our focus was on minorities. So we did a lot of outreach in Christian and Hindu communities.

AK: One community that brought women to the March was the Pakistan Fisherfolk Forum that works to protect the livelihoods of coastal communities in Sindh and Balochistan. Fatima Majeed is Senior Advisory Chairperson of the forum. She has been in politics as well as a member of Karachi's District Council and as a candidate for election on a PPP ticket. We went to Ibrahim Hyderi and spoke with Fatima about her work and how she mobilised for the Aurat March.

FM: I was also interested -- I thought that something different is happening and we should be a part of it. During that time I was a little busy with the programs of my party but after mobilising for only two days, I brought six buses filled with women to the March. I participated in the Aurat March and mobilized women too. They came to the March with me and had lots of fun. Yes, they had a lot of fun. They said that they really enjoyed the program (Aurat March). One good thing was that women didn’t have any restrictions - they were doing whatever they wanted to. They were speaking up and everyone was protesting in their own way.

AK: We asked Fatima whether they faced any backlash for taking part in the March?

FM: We faced no backlash from men in our community because they actually accompanied me [in protest actions], so they were just sitting in one corner. The men thought that as women from their community have gathered at the Aurat March, women from all classes are there so they should also get a chance to say whatever they want to say and carry out protests. They recognize that Women’s Day is celebrated internationally, and women should be given the freedom to celebrate this day fully.They should have this opportunity. Other than that, people from my community complained regarding some slogans at the March but I faced these complaints. I also had an argument with them. And they were complaining against slogans like, “lo main beth gayi sahi sai” [Look, I sat properly] and “mera jism meri marzi” [my body, my choice] which weren’t trying to say what they thought they were. These were all used for the protest but people will assume whatever they want to; it depends on their way of thinking.

AK: We asked Fatima what were the demands of her community during the Aurat March and what did their slogans look like?

FM: The slogans that we made were regarding tax and tax justice. We didn’t want our utilities and everyday expenses to be taxed. And we also made a slogan that the tax burden on our women should be reduced. We also had more demands regarding the mangroves and the ocean. All the demands were regarding our employment.

There were also certain demands regarding women and equality. We demanded that women work with men and are given equal rights. If women are working alongside men, they should be given equal rights.

We come from a village, and even though Ibrahim Hyderi has really expanded now, we have our own culture here. We live here in our own way and have a different environment here. All of the women who live here with me are poor - some work in factories, and some in bungalows as house help. So when they accompany and sit with other women they feel nice. And the women who accompany me told me that they have gone to other programs as well but at this time [at the Aurat March] they didn’t feel different from others. Equality. We were all sitting together. Women came from different class levels and were sitting together at one place - no one is bigger, no one is smaller. And I believe that the women who came along with me enjoyed the most because they were the ones who were dancing the most.

[Aurat March chants]

AK: I wanted to find out more about the diversity of the participants of the March. Qurat Mirza explained.

QM: The people who we were organizing with were from ordinary communities - they were all women. And there were students in it too who were going to underprivileged areas or far-flung areas in Karachi’s outskirts to inform women living there about the March. And those women who are victims in one sense or the other, are going through these problems in one way or the other. So our target… the people that we were working with were women, sexual minorities, which included transgenders too. Then religious minority women, working women, polio workers, and lady health workers. And we were trying to give this message to the state.

AK: It seemed to be that the young feminists of Aurat March wanted to do things differently from the older activists who began the modern women's movement in the 1980s. This movement was led by a group called Women's Action Forum (WAF) or "Khawateen Mahaz e Amal" in Urdu. This was not an NGO but a platform for mainly educated and urban-based women to lobby with government to remove discriminatory laws against women and make policies that protect women's rights. WAF still exists today, in fact Qurat is a member of its Karachi chapter. I asked her how the Aurat March organizers felt they were different from WAF?

QM: I am still trying to explore the difference in strategies because I have been a part of it too. I believe that Women’s Action Forum has had lots of achievements - I would call these contributions rather than achievements. But they are more involved in advocacy so it’s more like a think tank sort of a group. And they work on issues that are brought forward to them but in terms of politicization the thing is that they mostly work on legislation.

Everyone worked a lot on the forced conversion bill but we couldn’t pass it for some reason. We thought that if we have a strong women’s force behind this and if we go out on the streets and say that “No, we want this” the state will have to listen to us… so we witnessed that gap.

AK: So it sounds to me that younger feminists are impatient with the lack of progress on important legislative reforms, among other issues. They want to generate support on the streets to push politicians to act. But this approach has some risks as well. Some right-wing groups threatened legal action against Aurat March organizers, and certain activists received threats. In 2020 there was a court petition to stop the March in Sukkur, which eventually failed, but still – I wondered if the backlash generated some fear amongst the activists. Qurrat told me that the public never expected five thousand women to come out on the streets of Karachi or other cities like Lahore, Islamabad, Peshawar and Quetta. And the controversial posters were meant to provoke discussion and debate about our social values that were harming women’s rights. The backlash took a while, but when it came it was not only from the usual quarters, but also from liberals, from those Qurat calls misogynistic. I asked her to explain.

QM: So there are these ‘boys’ out there who are educated, not really practicing [Muslims], aren’t affiliated with any religious groups but their masculinity gets hurt when we say “mera jism meri marzi” [my body my choice] - so they think, “how dare” you know? So this has become a nexus - religious fundamentalists' goal is to also control women’s sexuality - this is what patriarchy is and both these groups have kind of aligned. What happened was that in the first Aurat March it was quite clear that these religious fundamentalists and these misogynist people are there left, right and center but the backlash took some time because they didn’t understand what we meant by “mera jism meri marzi” [my body my choice] and all of that.

AK: I asked Qurat what the organisers’ strategies have been apart from hosting the annual Aurat March.

QM: We go [to these communities] to build relationships, and once we have developed a relationship we go to Aurat Haq and ask them what their politics is and if they can teach us their politics. We don’t want to teach them any politics. Someone might have a domestic violence issue and at the Aurat March they can connect with the fisherfolk community. And staying connected in Aurat Haq means that those women started sharing their problems with us. So the immediate thing that they think about is how they can support each other. It’s like relationship-building. We don’t aim to make a collective, leadership or membership - it’s too early for that. We thought multiple times about the membership days but we first want to grow. We just want to make friendships - for example we work with minority groups and have connected with the Christian minority group -- they have their issues so we connect with them so we can talk about their demands and bring forward some of them.

AK: Pastor Ghazala is a Christian scholar and leader who founded her own religious order for Christian women in Karachi, called "Bait ul Momineen". She responded to the Aurat March invitation and brought women from her community to join in every year. I asked her what she thought the protest action has accomplished.

PG: One thing that I really appreciate is that all women in the Aurat Haq platform are young. And if you learn activism in your youth and become sensitized, you will definitely have an influence… You can have an influence at your home and at your school, college or university. But I am really happy that through Aurat Haq and Aurat March young activists have come forward and that has had a huge impact. And I would say that there is a collectiveness amongst women. I have seen the collectiveness as women are coming together whether they are older or younger - all of them are coming together and giving each other space.

AK: Pastor Ghazala feels the long term success of the Aurat Marches will be secured if women politicians, such as MNAs and MPAs can be brought onto its platform.

PG: Look, I also said this earlier to the Aurat March people that we need to connect with women politicians. Aurat March people should meet MNAs and MPAs. And I believe that Aurat March is the only platform where women have openly protested, danced and raised their concerns.

AK: While the internal debates about who to involve and how to strategize continue, the next Aurat March, 2021, is upon us. We look forward to seeing how activists will unite and organize to put forward their demands. In the current climate of shrinking civic spaces in Pakistan it may be harder than ever to mobilize for women’s rights.

[Aurat March music and chants]

AK: This podcast was produced in collaboration with Films D’art. I would also like to thank my research officer Asiya Jawed for her contribution. I hope you enjoyed the first episode of our podcast series Khoj and hope you will tune in on our next episode. Until then, Khuda Hafiz.

[soft music]

A special thanks to Komal Qidwai, Zonia Yousuf and Fatima Jafar for their research support.